وطن عزیز پر مسلط کی گئی تمام جنگوں میں قوم کے بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاک دھرتی کو ہمیشہ شاد و آباد رکھا ہے۔ ان میں سے کچھ کو بہادری کے لازوال مظاہرے اور وطن عزیز کی حفاظت پر اپنی جان نچھاور کرنے پر اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ 1956 کو اس وقت کے صدر پاکستان سکندر مرزا نے ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر کا اعلان کیا اور یہ تمغہ مسلح افواج کے ان جری اراکین کو دینے کا اعلان کیا جنہوں نے ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لیے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بے حد بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہو۔
اس اعزاز کا نام اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے نام پر رکھا گیا۔ حضرت علیؓ میدان جنگ میں اپنی بہادری و کراری کی وجہ سے مشہور ہیں اور خود پیغمبر اسلامؐ نے انہیں ’’شیر خدا‘‘ کا لقب دیا تھا۔ پاکستان میں بری، بحری اور فضائیہ کے کئی جری جوانوں کو یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کی ہے جہنوں نے کارگل جنگ میں دشمن کو ایسی کاری ضرب لگائی جو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔
12 ناردرن لائٹ انفنٹری سے تعلق رکھنے والے معرکہ کارگل کے شہید حوالدار لالک جان (نشان حیدر) کا یوم شہادت 7 جولائی کو منایا گیا۔ کارگل معرکے میں بہادری اور شجاعت کی داستان رقم کرنے والے قوم کے عظیم سپوت لالک جان شہید نشان حیدر کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غدر کی وادی یاسین کے دور افتادہ گاؤں ہندور سے تھا۔ لالک یکم اپریل 1967 کو پیدا ہوا اور 7جولائی 1999 کو کارگل کے ٹائیگر ہل پر 32 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ دسمبر 1984 میں فوج میں شمولیت اختیار کی، مئی 1999 میں معرکہ کارگل کے وقت وہ کمپنی ہیڈکوارٹرز میں تعینات تھے، انہوں نے محاذ پر جانے کا رضاکارانہ فیصلہ کیا، جنگ کے دوران انہوں نے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ بڑی دلیری سے اپنی چیک پوسٹ کا دفاع کیا اور دشمن کے کئی حملوں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے انہیں ناکام بنایا۔ 7 جولائی کو دشمن نے تمام دن ان کی چیک پوسٹ پر بھاری گولہ باری کی اور رات کے وقت تین اطراف سے حملہ کر دیا، لڑائی میں شدید زخمی ہونے کے باوجود شہید نے چیک پوسٹ خالی کرنے کے بجائے حملہ ناکام بنا دیا اور دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا، تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بھارتی فوج نے بھی شہید کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ چیک پوسٹ کا آخری آدمی تک بڑی دلیری سے دفاع کیا گیا۔ ان کی جرأت و بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔
اپنے شہیدوں کی یاد میں ہم ان کا یوم شہادت مناتے ہیں اور سڑکوں شاہراؤں کے نام ان پر رکھتے ہیں تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہم یاد کرا سکیں کہ آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اس میں کس کس کا حصہ ہے۔ اسی حوالے سے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی المعروف ڈی ایچ اے نے خیابان قائد اعظم پر ایک چوک پر یادگار بنا کر اس کا نام لالک شہید چوک رکھا۔ پھر ہوا یوں کہ سگنل فری کاریڈور بناتے وقت لالک چوک کا وجود ہی ختم کر دیا گیا اور اس چوک کا نام ڈی ایچ اے سینما رکھ دیا گیا۔ میں نے اس واردات کے بعد ڈی ایچ اے کے ہیڈ آفس فون کر کے کئی بار متعلقہ برانچ کی توجہ اس طرف دلوانے کی کوشش کی۔ ایک تو جس افسر سے بھی بات ہو وہ اپنا نام ایسے چھپاتے ہیں جسے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر بیٹھے ہوں بس ایک رٹا رٹایا جملہ کام بتائیں۔ میرے بار بار رابطوں کے باوجود متعلقہ برانچ سے رابطہ نہ ہو سکا کیونکہ کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھا۔ مجبوراً شکایات برانچ میں یاد دہانی کرائی کہ ایک نشان حیدر سے موسوم چوک کا نام تو انہوں نے مٹا دیا لیکن اس پر ظلم یہ کہ اس کا نیا نام ڈی ایچ اے سینما چوک رکھ دیا۔ بار بار رابطوں کے باوجود ڈھاک کے تین پات کے مصداق چوک کا نام تبدیل نہ ہو سکا۔ تین چار ماہ بعد پھر کال کی تو کہا دفتر آ کر درخواست دیں۔ درخواست دے دی، آج لالک جان کی 22ویں برسی آ گئی لیکن لالک جان چوک کا نام بحال نہ ہو سکا اور ڈی ایچ اے سینما کا سائن بورڈ آج بھی میرا منہ چڑا رہا ہے۔ میں نے بارہا ڈی ایچ اے کے حکام کو باور کرایا کہ یہ ڈی ایچ اے، عسکری ولاز وغیرہ آپ نے شہدا ویلفیئر کے نام پر ہی کھڑے کیے ہیں تو اسی کے واسطے اس طرف توجہ دے دیں۔ ایک بار آئی ایس پی آر کو بھی لکھا لیکن بے سود۔ شاید ان کے لیے یہ ایک معمولی کام ہو لیکن ایک شہید کی یادگار کو قائم رکھنے سے بڑا کام کوئی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مجھے کہا گیا کہ میں جذباتی ہو رہا ہوں اور ایک نان ایشو پر سیریس ہو رہا ہوں۔ ڈی ایچ اے والو اور کچھ نہیں تو نواز شریف کے بنائے گئے کلمہ چوک سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ جب کلمہ چوک انڈر پاس کی تعمیر کی گئی تو پرانا کلمہ چوک اس کی زد میں آ گیا لیکن شہباز شریف نے کلمہ چوک کی یادگار مٹائی نہیں بلکہ علیحدہ تعمیر کر دی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے حوالدار لالک جان نشان حیدر کے یوم شہادت کے حوالے سے ایک مختصر پیغام جاری کیا کہ قوم لالک جان نشان حیدر کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، لالک جان نے 7 جولائی 1999 کو کارگل میں اپنی زندگی مادر وطن کے دفاع کے لیے قربان کی، ان کی جرأت اور بے لوث قربانی وطن کے محافظوں کیلئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آئی ایس پی آر کو لالک جان چوک کے حوالے سے ڈی ایچ اے کے کارنامے سے متعلق لکھ چکا ہوں لیکن اس طرف سے بھی مکمل خاموشی ہی رہی۔
لالک جان نے اپنے گاؤں ہندور میں اپنے دیگر ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر المدد ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تھی جہاں غریب لوگوں کی مدد کی جاتی تھی۔ اسی طرح ہائی سکول ہندور کے طلبہ کے ساتھ مل کر انہوں نے علاقے میں ڈاکخانے کی سہولت کے لئے کام کیا۔
وہ اپنے علاقے کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر محدود وسائل کی وجہ سے اُن کے خواب پورے نہیں ہو رہے تھے، لیکن جذبہ جوان تھا اور عزم مضبوط کہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی بہتر سر انجام دیتے ہوئے فوج کا اعلیٰ اعزاز اپنے نام کر لیا، جس کے بعد علاقے میں بہت حد تک ترقیاتی کام ہوئے۔ گاہکوچ تا ہندور پکی سڑک بنی، سکول اور کالجز بنے، علاقے میں متعدد فری میڈیکل کمیپ منعقد ہوئے اور یوں تعلیم، صحت اور مواصلات کے نظام کی بہتری کے لئے لالک جان شہید کی بہادری کے اعتراف میں کافی حد تک کام ہوا۔ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار لالک جان شہید اپنے آبائی گاؤں ہندور میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ شاید اس تحریر کے بعد آئی ایس پی آر اور ڈی ایچ اے کو کچھ خیال آ جائے کہ اپنے محسنوں کو یاد رکھنے والے ہی سرخرو ہوتے ہیں۔
ہم لالک جان شہید کی بیٹیوں آمنہ اور روبینہ سے شرمندہ ہیں۔
قارئین اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔