نوازشریف غصے سے بھرا ہوا دماغ اور انتقامی جذبات سے لبریز دل رکھتا ہے… اس کے ساتھ معاملات طے نہیں کیے جا سکتے…سویلینز بالادستی جس کا وہ بہت چرچا کرتا ہے اس کی اپنی برتری قائم رکھنے کے ارادے اور خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں… اسے تین مرتبہ اقتدار دے کر آزما لیا… ہر بار اس نے ہم سے ٹکرائو پیدا کرنے کی ٹھانی… وہ داخلی امور کیا ملک کے نازک خارجہ اور دفاعی معاملات پر بھی اپنی رائے مسلط کرنا چاہتا ہے… ہمیں ان امور میں بھی بے دخل کر کے رکھ دینا چاہتا ہے اس پر دعویٰ کرتا ہے سب کچھ کا آئین تقاضا کرتا ہے… اس کے اندر مرضی کی ترمیمات کا تو ہر وقت خواہش مند رہتا ہے لیکن ہم اگر اس دستاویز میں تھوڑا بہت ردّوبدل کرنا چاہیں تو مقابلے پر ڈٹ جاتا ہے یہ آپ کا نہیں دوتہائی اراکین پارلیمنٹ کا کام ہے… پھر کہتا ہے جمہوری اور آئینی عمل کی راہ میں رکاوٹیں برداشت نہیں کی جا سکتیں… آزاد انتخابات کا بہت بڑا داعی بنا پھرتا ہے… مگر جس طرح کے آزاد انتخابات جو وہ چاہتا ہے انہوں نے ہمیشہ مجیب، بھٹو اور نوازشریف جیسے خودسر لیڈروں کو پیدا کیا… وہ ہمارے لیے سخت دردسر کا باعث بنے… انہیں ہٹانا ہمیشہ کاردارد ثابت ہوا نتیجتاً ملک انتشار کا شکار ہوا… بے یقینی کی کیفیت بڑھی… عدم استحکام نے جنم لیا جس کا الزام اکثروپیشتر ہم پر ڈالا جاتا رہا… لہٰذا اس قبیل کے لیڈروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑائے رکھنا ہماری حکمت عملی کا بنیادی جزو ہونا چاہیے… آخر ہم کب تک بار بار کے تجربوں کے بعد انہیں اپنے اور قوم کے سروں پر مسلط کرتے رہیں گے بہتر ہے ایسے لیڈروں کی کھیپ پیدا کی جائے جو نام نہاد آئین دوستی کے نام پر اناپرستی کا شکار نہ ہوں اور ہمارے ساتھ ٹکرائو اور احتساب کی راہ پر چلنے کو ہی اپنی سیاست کی معراج نہ سمجھیں… ہمارے قدم سے قدم ملا کر چلیں… بلکہ راستہ ہم متعین کریں ساتھ یہ دیں کیونکہ امور سیاست پر برابر کے اختیارات کے ساتھ اثراندازہوتے رہنے کا ہمیں بھی اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا نام نہاد منتخب سیاستدانوں کو مگر یہ ہمارے ساتھ کسی قسم کے قابل عمل سمجھوتے کی راہ پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے… اس لیے نوازشریف برانڈکے لیڈروں سے مکمل نجات حاصل کرنے میں ہی عافیت پائی جاتی ہے… اس کی بیٹی مریم بھی ماسوائے اس کے کہ باپ کی مقبولیت کے دھوکے میں مبتلا ہے اسی کے خیالات کی علمبردار بن کر میدان میں آن کھڑی ہوئی ہے محض نواز کی نقالی کرتی ہے اس کی نام نہاد عوامی مقبولیت کی خود کو وارث گردان کر عوامی جلسوں میں اکڑفوں دکھاتی ہے… باپ کی مانند یہ بھی ہمیں قابل قبول نہیں… اس نے اگلے روز جو بڑے طنطنے کے ساتھ کہا ہے ہم پاگل ہیں جو ان کے ساتھ ڈیل کریں جن کے خلاف اتنی سخت جدوجہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں… تو اسے معلوم ہونا چاہیے ہم بھی اس کے باپ کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل کے متمنی بیٹھے ہوئے نہیں ہیں… ہم دونوں اور ان جیسے سب کو نکڑپر لگا کر رکھنا چاہتے ہیں…
البتہ (ن) لیگ کی چوٹی کی لیڈرشپ میں شہباز شریف کے اندر لچک پائی جاتی ہے لہٰذا اس سے بات کی جا سکتی ہے… اسے نواز کے متبادل کے طور پر سامنے لایا جا سکتا ہے… اس کے اندر انتظامی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں… تھوڑی سی محنت کے ساتھ اور ہماری ایجنسیوں کی مدد حاصل کر کے اپنے بھائی اور پارٹی کے ووٹ بنک پر اپنا تسلط جما سکتا ہے… اسے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے کام میں لا سکتا ہے… اس کے قابل بھروسہ سویلین لیڈر ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں… چنانچہ اسے باآسانی وزارت عظمیٰ کا منصب سونپا جا سکتا ہے… کئی مرتبہ اس پر غور ہو چکا ہے… شہباز کو بھی ایک سے زائد مرتبہ پیشکش کی گئی ہے جس پر وہ بہت مطمئن اور
مسرور نظر آیا… لیکن راستے میں بھائی بہت بڑی رکاوٹ بن کر بیٹھا ہوا ہے… ووٹ بنک کی کنجی اس کے ہاتھ میں ہے… شہباز کے لیے ویسے بھی بھائی کے بندھن سے رسی تڑوا لینا آسان نہیں اگرچہ کوشش اس کی کرتا رہتا ہے… بھائی کو قائل کرنے کی ہرممکنہ سعی اس نے کر دیکھی ہے… اب بھی مایوس نہیں ہوا … ہمارے سامنے یہی رونا لے کر آ جاتا ہے بھائی نہیں مان رہا… اسے بار بار بتایا گیا ہے یہ تمہاری ذمہ داری ہے بھائی کو آمادہ کر لو… خود سیاست سے ریٹائر ہو جائے چاہے عملاً اس کا اعلان نہ کرے مگر میدان تمہارے لیے خالی چھوڑ دے… اس کے لیے بھی امکاناً کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں گی… تمہاری وزیراعظم بننے کی آرزو بھی پوری ہو جائے گی اور ہمیں بھی اس دردسر سے قدرے آرام اور افاقہ حاصل ہو جائے گا جس میں نواز نے خاص طور برطرفی کے بعد ہمیں مبتلا کر رکھا ہے… شہباز کوشش کرنے کا وعدہ تو ہم سے لاکھ کر کے جاتا ہے مگر ابھی تک اس سے کچھ بن نہیں پایا… مریم نواز کا تازہ اور بظاہر زوردار بیان اسی کا غماز ہے… چودھری نثار کو بھی شہباز نے اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا ہے… چکری کا یہ چودھری پہلے سے ہمارا منظورنظر ہے… نواز کو اس کی حکومت کے دوران نیچا دکھانے اور شرمندگی سے دوچار کرنے خاص طور پر جنرل مشرف کے مسئلے پر اس نے کئی دفعہ ہمارا ہاتھ بٹایا ویسے بھی وہ خاندانی لحاظ سے ہمارے گھر کا آدمی ہے… نواز نے بھی نہایت چالاکی کے ساتھ 2018 کے چنائو کے دوران اسے قومی اسمبلی سے نکال باہر پھینکنے کی تدبیر استعمال کی… لیکن حقیقت یہ ہے شہباز اور نثار کے درمیان گاڑھی چھنتی ہے… دونوں فوج کے آئینی کردار پر یکساں اور ہمارے موافق رائے رکھتے ہیں… انہیں برسراقتدار لا کر ہماری بالادستی کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے اور سویلین راج کے بارے میں بھی عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے… اس پر مستزاد یہ کہ جو ترقیاتی کام شہباز نے پنجاب میں کیے تھے اور عمران خان سے کچھ ہو نہیں پا رہا ان کے نئے اور ہماری مرضی کے عین موافق نئے دور کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور ڈیل بھی کی جا سکتی ہے…
متبادل کے طور پر زرداری صاحب نے بھی اپنے بیٹے بلاول کو بار بارپیش کیا ہے… پی ڈی ایم کو ہماری خواہشات کے مطابق توڑ کر رکھ دینے میں کیا ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے… لیکن بلاول ابھی غیرپختہ ہے… اسے ایک عمر چاہیے وزارت عظمیٰ کے مقام تک پہنچنے کی خاطر… اس کے علاوہ زرداری صاحب اپنی تمام تر سیاست کاریوں اور اس میدان میں کامیاب فنکاری کے مظاہروں کے باوجود بہت زیادہ قابل اعتبار نہیں… وہ سجی دکھا کر کھبی مارنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں… ان پر آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کیا جا سکتا… البتہ صوبہ سندھ کی حد تک باپ بیٹے سے ڈیل کی جا سکتی ہے جو فی الواقع چل بھی رہی ہے… مگر وہاں بھی یہ مسئلہ ہے ان سے صوبہ سندھ کی شہری آبادیوں کے ووٹروں سے جو ماضی قریب تک ایم کیو ایم سے وابستہ تھے، بنا کر رکھنی نہیں آتی… ہمارا اس صوبے کے اندر یہ کم کمال ہے کہ پہلے الطاف حسین کے بت کو بنایا… پھر جن کی شکل میں بوتل سے باہر نکالا… اس نے بیس پچیس سال تک وہ ماردھاڑ کی اور ایسی ایسی خون کی ندیاں بہائیں کہ زمانہ یاد کرے گا… اب اسے بوتل میں دوبارہ بند کر کے ڈھکنا تقریباً بند کر دیا ہے… تاہم وفاق کے اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بلاول کو ایک ڈیڑھ دہائی تک انتظار کرنا ہو گا پھر اس کے ساتھ ڈیل کا موقع آئے گا… یوں میدان میں موجودہ وزیراعظم عمران خان اور اس کے مدمقابل شہباز شریف رہ جاتے ہیں… ہمارے سامنے سوال یہ ہے 2023 کے انتخابات میں کامیابی دلانے اور اگلے اقتدار کی باری سپرد کرنے کے لیے کس سے ڈیل کی جائے… عمران خان کی اطاعت گزاری سے اس کے تمام تر بچپن کے مظاہروں اور خودار آرائی کے زعم باوصف ہمیں زیادہ شکایت نہیں… اسے راہ راست پر رکھنا آسان ہوتا ہے… لیکن مسئلہ بیچ میں یہ آن پڑا ہے پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی لحاظ سے بااثر ترین صوبے میں اسے وہ مقبولیت حاصل نہیں جو اس اعلیٰ منصب کے لیے درکار ہے… 2018 کے چنائو میں ہم نے بڑی مشکل سے بھان متی کا کنبہ جوڑ کر اس کے لیے عہدے کا حلف اٹھانا ممکن بنایا تھا… اب تک وہی کیفیت چلی آ رہی ہے… وہ ہر دم اپنے چھوٹے بڑے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کے لیے ہماری حمایت کا رہین منت رہتا ہے… یوں حکومت اس کی لڑکھڑاتی رہتی ہے… مقابلے پر شہباز ہے… عمران اس سے قدرے خوفزدہ رہتا ہے اگلے انتخابات میں اپنا حریف گردانتا ہے… اسی لیے اس سوچ میں مبتلا رہتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح مقدمے میں پھنسا کر نااہل قرار دلوا دے شہباز مگر خوداعتمادی کے جذبے سے سرشار ہے… ہم سے بھی بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے… پنجاب جیسے اہم صوبے میں مضبوط ووٹ بنک کا اکیلا مالک نہیں تو حصہ دار ضرور ہے… ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اس کا ریکارڈ اظہر من الشمس ہے مگر پھر وہی قضیہ بھائی کے کمبل سے اس کا نجات حاصل کرنا آسان نظر نہیں آتا… تو 2023 کی ڈیل کس سے کی جائے دوبارہ عمران سے یا شہباز کو پوری طرح میدان میں اتار کر نئے اور تازہ دم گھوڑے کے طور پر دوڑایا جائے… سیاسیات ملکی کو نیا روپ دیا جائے… یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ گھڑ سواری بہرصورت ہم نے کرنی ہے کوئی خواہ کتنا ننھے خواں بنتا پھرے… لیکن مسئلہ پھر بیچ میں آن پڑتا ہے… نواز کا ووٹ بنک ہمارے اندرونی جائزوں کے مطابق بڑھتا جا رہا ہے… اس کی موجودگی میں ڈیل کرنا ہماری تمام تر طاقت و سطوت کے باوجود آسان کام نہیں…