اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم فراہمی سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست پر سماعت کی۔ بینج کے دیگر ممبران میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
آج ہونے والی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ اور ایڈوکیٹ شعیب شاہین نے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ ’ہم نے پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی اُس کا کیا بنا؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے۔‘
بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’ایک رپورٹ الیکشن کمیشن اور دوسری چیف سیکریٹری پنجاب نے جمع کروائی ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے لطیف کھوسہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے لوگوں کے 1195 کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے۔ کیا چیف سیکریٹری پنجاب کا جواب آپ نے دیکھا ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوا سوال پوچھا کہ ’ہمیں بتائیں رپورٹ میں کیا غلط ہے؟ رپورٹ پر اعتراضات ہیں تو تحریری طور پر جمع کروائیں۔اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’جس وجہ سے رپورٹ مانگی گئی اس کا ایک بھی جواب نہیں دیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کی شرح 76.18 فیصد ہے۔ آپ یہ بھی کہہ رہے کہ ٹربیونلز نے آپ کے چند اُمیدواروں کی اپیلیں بھی منظور کی ہیں۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’اب آپ چاہتے کیا ہیں؟ کہہ دیں کہ آپ کے سو فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونے چاہییں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’الیکشن کمیشن قانون کے مطابق جو نہیں کر رہا وہ عدالت کو بتائیں، یا آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں؟ یا پھر وجوہات بتائیں؟ اگر آپ عدالت سے کوئی حکم چاہتے ہیں تو وہ بتائیں جو ہم کر دیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ اپنے دکھڑے نہ روئیں بلکہ بتائیں کہ یہ ریلیف چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ ’آپ کے مطابق پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت سب جماعتیں آپ کے خلاف سازش کر رہی ہیں، کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہییں؟ اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’100 فیصد الیکشن چاہییں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں، پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدر کریں۔ اگر ان کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کے الزامات پر تردید میں جواب آ جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں یہ درست نہیں، ہم کسی کی انتخابی مہم نہیں چلا رہے، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کے لیے ہو گا، صرف پی ٹی آئی کے لیے نہیں۔‘
لطیف کھوسہ کا چیف جسٹس سے مکالمہ ’میرے منشی سے سپریم کورٹ میں دستاویزات چھینی گئیں، اس واقعہ کا آپکو بھی علم ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’مجھے اس واقعہ کا کوئی علم نہیں ہے، یہ منشی کیا ہوتا ہے وکیل یا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہوتا ہے، منشی کو تو چیمبرز جانے کی اجازت ہی نہیں ہے، آپ کے کسی منشی کی درخواست میں نہیں سنوں گا۔‘
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’جسٹس سردار طارق مسعود کے سامنے بھی منشی والا معاملہ اٹھایا تھا۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جو ججز یہاں موجود نہیں ان کے بارے میں کوئی بات نہیں سنیں گے، ہمارے سامنے کچھ دائر ہوگا تو ہم اسے دیکھیں گے، اگر ساری دنیا دیکھ رہی اور ہمیں بھی دیکھنا چاہئیے تو یہ بات غلط ہے، کوئی درخواست آئے گی شکایت آئے گی تو ہم سنیں گے۔‘
لطیف کھوسہ نے ایک مرتبہ پھر دلائیل کا آغاز کیا اور کہا کہ ’پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا پلان ہے عمران خان پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔جس پر چیف جسٹس نے اُنھیں روکا اور کہا ’سیاسی باتیں نہ کریں ہمارے سامنے اس وقت عمران خان کی کوئی درخواست نہیں۔
جس پر پی ٹی آئی کہ وکیل شعیب شاہین سامنے آئے اور بولے کہ ’بلے کی نشان والی درخواست آج ہی لگائیں کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہے، وکیل حامد خان سپریم کورٹ لائبریری بیٹھے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حامد خان ہمارے سامنے نہیں آئیں گے تو ہم کس کو سنیں، سب سے زیادہ اس وقت مقدمات پی ٹی آئی کے آرہے ہیں، پی ٹی آئی مظلوم ہے اس لیے زیادہ مقدمات آرہے ہیں، سیاسی تقاریر یہاں نہ کی جائیں۔‘
آپ اس کیس کا بتاتیں کیا کرنا ہے،چیف جسٹس کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ ’مجھے تین دن کا وقت دے دیں الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر جواب جمع کرا دونگا، وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ کا جواب۔
سپریم کورٹ نے بلے کے نشان کیس میں حامد خان کو بلا لیا، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ’استدعا ہے کہ آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر کے سنا جائے، کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت ہے بلے کے نشان سے متعلق، آج کسی بھی وقت کیس کو سماعت کر کے سن لیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے شعیب شاہن سے سوال کیا کہ حامد خان کہاں ہیں؟ بلائیں ان کو، اگر آپ اٹھ کر کمرہ عدالت آنے کی زحمت نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں؟