غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری اور نسل کشی جاری، 9 ہزار 600 بچے شہید

غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری اور نسل کشی جاری، 9 ہزار 600 بچے شہید
سورس: file

غزہ:  تین ماہ بعد بھی غزہ میں جاری اسرائیلی فوج  وحشیانہ بمباری میں غزہ میں نسل کشی نہ رک سکی۔

عرب میڈیا کے مطابق  گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کے دو صحافیوں سمیت 8 فراد شہید ہوچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹص کے مطابق گزشتہ رات اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بیت لحم میں ڈیشیہ کیمپ
قبالان، نابلس شہر کے جنوب میں، ہیبرون کے جنوب میں دورا اور یطہ کے قصبے، العروب کیمپ اور ہیبرون کے شمال میں چھاپے مارے۔ 

اس سے قبل اسرائیلی فوج نے ایک 33 سالہ فلسطینی کو اس کی کار میں گولی مار کر شہید کر دیا  اسرائیلی فوج نے اس واقعے کو، جس میں ایک خاتون بھی زخمی ہوئی، کو دہشت گردانہ حملہ قرار  دینےکے بعد ہمسایہ شہروں رام اللہ اور البریح میں چھاپوں میں کم از کم دو فلسطینی طبی کارکنوں کو گرفتار کیا۔

فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق غزہ میں اسرائیلی قابض فوج نے دیر البلاح میں الاقصی شہداء اسپتال کے اطراف میں بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔اسرائیل نے نصیرات پناہ گزین کیمپ کے مشرقی علاقوں اور غزہ کے رہائشی علاقوں پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی خاتون جاں بحق ہو گئی۔

  
 

عرب میڈیا کےمطابق  الجزیرہ کے غزہ بیورو چیف وائل دہدوح کے بڑے بیٹے حمزہ دہدوح غزہ کے خان یونس کے مغربی حصے میں اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوئے۔ اس حملے میں صحافی مصطفیٰ بھی مارے گئے، جب وہ المواسی کے قریب سفر کر رہے تھے، رپورٹس کے مطابق حمزہ اور مصطفیٰ کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ گزشتہ بم دھماکوں سے بے گھر ہونے والے شہریوں سے انٹرویو لینے کی کوشش کر رہے تھے۔

دیر البلاح میں بھی اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں متعدد شہری مارے گئے، غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری میں بچوں اور 2 صحافیوں سمیت 9 افراد شہید ہوئے۔

صیہونی فوج غزہ کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا، رات گئے ہسپتال کے اطراف ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا گیا، سفاک فوج نے الشفا ہسپتال کے تمام عملے اور مریضوں کو فوری اسپتال سے نکل جانے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ7 اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیلی فوج غزہ میں 22 ہزار835 افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 9 ہزار 600 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔

 
 
 

مصنف کے بارے میں