برطانیہ جانے کا جب بھی اتفاق ہوا وہاں انکی پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا ۔جہاں بھی جانا ہو اگر آپکے پاس اپنی سواری نہیں ہے تو کوئی فکر کی بات نہیں اگر لندن کی بات کریں تو آپ ٹیوب ٹرین میں ہر جگہ جا سکتے ہیں جہاں ٹیوب ترین نہ جا سکے گی وہاں بسیں آپ کی راہ میں کھڑی ہونگی۔زیادہ تر سڑکیں پاکستان کی سڑکوں سے چھوٹی ہیں لیکن اسی سڑک پر بس بھی نظر آئے گی اور عام ٹرانسپورٹ بھی لیکن ڈسپلن کے باعث رش نظر نہیں آئے گا اگر رش ہوا بھی تو آپ باآسانی وہاں سے نکل جائیں گے کوئی ہارن کی آواز نہیں آئے گی اگر کوئی جلدی میں بھی ہو گا تو بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرے گا ۔سب کے پاس تقریباً اپنی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں اس کے باوجود وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں عزت کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتے ہیں پیسے کے ساتھ ساتھ اپنے شہر کو سموگ جیسی آفت سے بھی بچاتے ہیں ۔
آج ہم یہاں صرف لاہور کا ذکر کریں گے ایک زمانہ تھا لاہور میں جہاں بھی جانا ہو باعزت تو نہیں بہرحال پبلک ٹرانسپورٹ موجود تھی اگر آپ کے پاس اپنی سواری نہیں بھی ہے تو آپ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے بسیں بھی موجود ہوتی تھیں ویگن بھی اور ڈبل ڈیکر بس بھی ۔لیکن ایک طرف لاہور پھیلتا گیا دوسری طرف حکمرانوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور وہ ناپید ہو گئی ۔لاہوریوں نے مجبوراً اپنی سواریاں خریدنا شروع کر دیں سائیکل تو خیر اس شہر سے غائب ہی ہو گئی البتہ موٹر سائیکل اور پھر جب نجی بنکوں نے گاڑیوں کی لیزنگ شروع کی تو پھر سڑکوں پر رش بڑھتا گیا کسی نے توجہ نہ دی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ٹرانسپورٹ بارے پالیسیاں بنتی رہیں لیکن عمل نہیں ہو سکا۔ لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل کو دیکھتے ہوئے 2013 میں لاہور میں پہلا میٹروبس منصوبہ شروع کیا گیا جو گجو متہ تا شاہدرہ تک کا تھا ،یقینا اس منصوبہ سے عوام کو ایک باعزت سفر کا ذریعہ ملا ۔وہ فیروز پور روڈ جس پر بہت رش ہوتا تھا اس منصوبہ کے آغاز کے بعد رش کم ہو گیا اس روٹ پر رہنے والوں کے لئے یہ منصوبہ ایک نعمت تھا اس میں عام غریب آدمی سفر کرتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس وقت اس منصوبہ کو جو عوام کے لئے تھا بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کسی نے جنگلہ بس کہا اور کسی نے تنقید برائے تنقید کے لئے کہا کہ اتنے پیسوں میں اتنے ہسپتال بن سکتے تھے وغیرہ وغیرہ موجودہ حکومت جو اس وقت اپوزیشن میں تھی نے پہلے تو خوب تنقید کی پھر ایسا ہی منصوبہ کے پی میں جہاں ان کی حکومت تھی کا آغاز کیا اسطرح ایک اور شہر میں عام عوام کو باعزت سفر کرنے کا موقع مل گیا ۔مسلم لیگ ق جو اسے جنگلہ بس کہہ رہی تھی اپنے دور حکومت میں یہ کام کرنے کی شدید خواہش رکھتی تھی لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی مجھے یقین ہے کہ اب جب بھی مسلم لیگ ق کو حکومت ملی تو جسے وہ جنگلہ بس کہتے نہیں تھکتی اسطرح کی تین چار سروس اور لاہوریوں کو تحفہ میں دیں گی۔ لاہوریوں کو باعزت سفر مہیا کرنے کے لئے اورنج ٹرین کی بات ہوئی تو مزید تنقید کی گئی اپوزیشن نے اپنے وکیل عدالتوں میں کھڑے کر کے سٹے آرڈر لیا اور اس پر کام کافی دیر رکا رہا بعد ازاں عدالت نے مکمل کرنے کی ہدایت دے دی ۔لاہوریوں پر احسان چڑھا کر یہ منصوبہ شروع کیا گیا اور ہر طرح اسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی کبھی کہا گیا کہ اس پر اتنا نقصان ہے اور کبھی کچھ ۔لیکن منصوبہ اس لئے مکمل کرنا پڑا کہ اس میں ایک برادر ملک بھی شامل تھا۔جیسے تیسے ٹرین چل پڑی۔ اس دوران موجودہ حکومت کے وزراء یہ کہتے رہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسے ضائع ہو رہے ہیں ۔ کسی نے عوام کا نہ سوچا ٹیکس سے رقم خرچ کرنے کی بات تو کی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ خالصتا ًعوام پر خرچ ہو رہا ہے ۔اس کی وجہ شائد یہ بھی رہی کہ یہ منصوبہ خواص کے لئے نہ تھا اس لئے انھیں تکلیف تھی کہ پیسہ غریب عوام کے کام کیوں آئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر شہباز شریف نے ایک اورنج ٹرین بنائی تو بزدار صاحب دو بنا دیتے جیسا کہ ماضی کی ایک مثال موجود ہے شہباز شریف نے نہر پر دو تین انڈر پاس بنائے عوام نے خوب سراہا پرویز الہٰی کی حکومت آئی تو انھوں نے چار پانچ اندر پاس بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زیادہ اہلیت رکھتے ہیں ۔ لیکن افسوس بزدار صاحب کے دور میں عوامی سفری سہولت کے کسی منصوبے کا آغاز نہ ہو سکا۔ یہ بات صرف لاہور اور بزدار صاحب کے عمل کرنے کی نہیں لاہور تا کراچی ،پشاور تا کوئٹہ اس کی ضرورت ہے۔
یہ اچھی سفری سہولتیں ہی ہیں جنھیں فراہم کر کے نہ صرف بہت سی عوام کے پیسے بچائے جا سکتے ہیں جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پٹرول پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور سموگ جیسی لعنت سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔لیکن اس کے لئے کام کرنا پڑے گا اگر ماضی میں کسی نے ایک میٹرو بس بنائی ہے تو لاہور میں ایک دو روٹ پر ایسی ہی سروس دے دی جائے تو عوام دعائیں دیں گے ۔جبتک ایسا ممکن نہیں ہے لاہور میں ایک منظم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم دیا جائے کہ اگر ایک شخص نے شاہدرہ سے بحریہ ٹائون جانا ہے یا ڈیفنس جانا ہے تو وہ جا سکے اور باعزت طریقہ سے چنگ چی پر بھی نہ ذلیل ہو وقت پر بھی پہنچ سکے ۔اور یہ سب کرتے ہوئے یقین رکھیں کہ عوام بے وفا نہیں ہوتے اچھے کام کرنے والوں کو یاد بھی رکھتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں ۔