حکمران جماعت بحرانوں کی زد میں ہے حکومتی کارکردگی کو اچھی تو ایک طرف تسلی بخش بھی نہیں کہہ سکتے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جماعت درپیش بحرانوںکا سامنا کیسے کرتی ہے خیبرپختونخوا کا اِس جماعت کو ملک گیراورمقبول بنانے میں اہم کردار ہے مگراِس جماعت کی وہاں بننے والی صوبائی حکومت کی دوسری مدت ختم ہونے سے قبل ہی بیزاری کے آثار نمایاں ہیں جس کا بلدیاتی انتخاب میں ٹھیک ٹھاک اظہار ہوچکا حکومتی حلقے تو کہتے ہیں کہ ہمارے امیدواروں کی شکست کی بڑی وجہ دراصل جماعت کی طرف سے غلط ٹکٹ بنے یوں پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہونے کی وجہ سے ہی اپوزیشن امیدواروں کی جیت کا سامان ہوا مگر یہ بات مکمل طورپر درست نہیں یہ ٹھیک ہے کہ ٹکٹ جاری کرتے ہوئے خاصی لاپروائی اور اقرباپروری کامظاہرہ کیا گیا مگر شکست کی ایک اور بڑی وجہ مہنگائی اور وعدوں کی عدم پاسداری ہے جس سے ووٹر بدظن ہوئے اور حکومتی جماعت کو شکست کا منہ دیکھنا پڑابات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلدیاتی نتائج کے بعد اِس صوبے میں جماعت کے اندر بھونچال کی کیفیت ہے ڈسپلن نام کونہیں اورتنظیمی ڈھانچے کی حالت ناگفتہ بہ ہے کئی علاقوں میں جماعت کے اندر بغاوت ہے تنظیمیں تحلیل کرنے سے صوبائی تنظیم کا بحران ختم ہوتا ہے یا نہیںاِس سوال کا جواب جاننے کے لیے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کاانتظار کرنا پڑے گا۔
بیرونی عطیات کے بارے میں الیکشن کمیشن کے پاس 2014 سے جاری کیس کے متعلق جانچ پٹرتال کی سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کو ملنے والے عطیات بارے جمع کرائی گئی تفصیلات جامع نہیں 2008 ۱ور2009کے دوران 77اکائونٹس میں سے اِس جماعت نے صرف بارہ ظاہر کیے اور باقی پوشیدہ رکھے اسی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت نے پانچ برس کے دوران بتیس کروڑ کی رقم چھپائی علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی 2012اور2013کی رپورٹ پر کوئی تاریخ ہی درج نہیں جو حساب کتاب کے وضع کردہ اصول و معیارات کی کُھلی خلاف ورزی ہے یہ غلطیاں معمولی نہیں بادی النظرمیںکافی سنگین ہیں اور جماعت کو درپیش دیگر بحرانوں سے زیادہ سخت بحران کی جانب اشارہ کرتی ہیں اب یہ تو حکمران جماعت کے اکابرین کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے قانونی موشگافیوں کا سہارا لیکر نقصان کی شدت ختم یا کم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر سکروٹنی کمیٹی کی طرف سے عائد کیے الزامات کو نظر انداز کرنے یا یا بیان بازی کے ذریعے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو جماعت کے کالعدم ہونے کا امکان کلی طور پر رَد نہیں کیا جا سکتا ۔
بیرونی عطیات کے حوالے سے دو پہلو اہم ہیں اول تفصیلات چھپانے کی وجہ ، آیا سیاسی جماعت کو موصول ہونے والے عطیات کے ذرائع درست تھے تو چھپانے کی نوبت کیوں آئی؟ دوم کیا ذرائع اور طریقہ کار غیرقانونی تھے اسی لیے دانستہ طور پر چھپایا گیاجو بھی ہے بہتر جواب تحریکِ انصاف کی قیادت ہی دے سکتی ہے صرف تحریکِ انصاف کوہی بیرونِ
ملک سے عطیات نہیں ملتے بلکہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر بھی کئی جماعتوں کو عطیات ملتے ہیں جمعیت علمائے پاکستان کے مدارس کا زیادہ انحصار بھی بیرونی عطیات پرہے جس کی وجہ سیاسی جماعتوں کی دیگر ممالک میں بنائی تنظیمیں اور حکومتوں سے تعلقات ہیں کئی ملکوں کی حکومتیں اپنی حامی جماعتوں کی فراخ دلی سے مالی مدد کرتی ہیں بیرون ملک میں قائم سیاسی تنظیمیں انتخابات میں فعال کردار ادا کرتی اور ذرائع ابلاغ میں جماعتی منشور کی تشہیر کے علاوہ بھی بوقت ضرورت اپنی جماعتوں کی مالی مدد کرتی ہیں لیکن تحریک انصاف کا دیگر جماعتوں سے الگ سلسلہ ہے اِس جماعت کا سیاست کے علاوہ کئی فلاحی اِداروں سے بھی تعلق ہے جن کا دارومدار ہی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے ملنے والے عطیات پر ہے اسی لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ اِس جماعت کو عطیات ملتے ہیں مگر بطور سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر عمران خان نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں یا نہیں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے چھپے کئی راز طشت ازبام کر دیے ہیں جن پر الیکشن کمیشن نے فرائض کی روشنی میں اب فیصلہ کرناہے وزیرِ مملکت فرخ حبیب نے تما م بینک اکائونٹ ڈکلیئرڈ اور ملنے والے ڈالروں کا حساب موجود ہونے کی بات کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی مالی معاونت کرتی ہے انھوں نے نیوزی لینڈ میں پارٹی کے لوگوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جو پیسہ پاکستان آیا ہی نہیں اُس کا کیا جواب دیں مگرشاید انھیں یہ یاد نہیں رہا کہ نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ کی عدم وصولی کے باوجود نااہل کردیا گیا حکمران جماعت کے پاس بیرونی عطیات کے حوالے سے جواب دینے اور شفافیت کے تقاضے پورے کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں اگر الیکشن کمیشن کو مطمئن نہیں کیا جاتا اور ساری توجہ بیان بازی پر ہی دی جاتی ہے تو بحیثیت جماعت تحریک انصاف کو بہرحال نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پرویز مشرف کے دور 2002 میں بنائے سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں سیاسی جماعتوں کے انتخابات،ڈھانچے ،سرگرمیوں اور عطیات کی مکمل وضاحت ہے اِ ن رہنما اصولوں کے مطابق سیاست میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر مالی سال کے اختتام پرساٹھ دنوں کے اندراندر بینک اکائونٹس کی ایسی آڈٹ شدہ تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائیں جن میںپورے سال کی آمدن ،خرچ،موصول شدہ عطیات کے ذرائع سمیت واجبات کی مکمل تفصیل ہو علاوہ ازیں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا پڑتا ہے جس میں جمع کرائی تفصیلات کے درست ہونے کا اقرار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ کوئی عطیہ کسی ممنوعہ ذرائع سے وصول نہیں کیا گیا پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے آرٹیکل پندرہ میں غیرملکی عطیات سے بنائی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کے طریقہ کار کی مکمل وضاحت ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کے اقدام کو اگرسپریم کورٹ درست سمجھے تو سیاسی جماعت تحلیل ہو جائے گی عمران خان جو اپنے سواتمام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے ہیں مگراب شفافیت کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے بیرونی عطیات کی تفصیلات پیش کرنے میں اُن کا پس و پیش سے کام لینا ظاہر کرتا ہے کہ پوچھے سوالات کے حکومتی جماعت کے پاس جوابات نہیں ۔
اکبر ایس بابر تحریک ِ انصاف کے بانی رہنمائوں میں سے ایک ہیں خیر اُن کا اختلاف کی وجہ سے اب جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اپوزیشن رہنمائوں سے زیادہ پی ٹی آئی کے بڑے ناقد ہیں کا موقف ہے کہ کوئی کمپنی سیاسی جماعت کو عطیہ نہیں دے سکتی مگر ووٹن کرکٹ لمٹیڈنے پی ٹی آئی کو دوملین ڈالرکیوں دیے؟اس سوال کا جواب جاننا اہم ہے وال سٹریٹ جنرل کے صحافی سائمن کارک نے اپنی لکھی کتاب میں ووٹن کرکٹ لمٹیڈ کاعارف نقوی اور ابراج گروپ سے تعلق بتایا ہے امریکہ میں عارف نقوی پر ایک بلین ڈالر کی بے قاعدگی کا کیس چل رہاہے وہی عارف نقوی جو عمران خان کی اکنامک ایڈوائزری ٹیم کا حصہ رہے اور اب جن کے پارٹنربھی وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیںگرفتاری کے وقت عارف نقوی نے پہلے رابطے کے طور پربھی عمران خان کاہی نمبر دیا اکبر ایس بابر تو دھرنے میں بھی بیرونی عطیات استعمال ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں اب شفافیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پوچھے سوالات کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار نہ کی جائے کیونکہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاںقانون اور قاعدے کے مطابق بنانے سے ہی پاکستان کا جمہوری عمل مستحکم ہو سکتا ہے۔