پنجاب کابینہ کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اربوں روپے پنجاب کے لوگوں پر خرچ کریں گے جبکہ وزیر صحت یاسمین راشد کی جانب سے ابھی تک نوازشریف کو پیشکش کی گئی ہے کہ ان کو بھی صحت کارڈ دیا جائے گا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام عرف احساس پروگرام کی طرف سے موبائل فون پر بیل ٹون رکھ دی گئی ہے کہ جس خاندان کی آمدن پچاس ہزار روپے سے کم ہو وہ شناختی کارڈ نمبر دے کر رجسٹریشن کرائے اور ایک ہزار روپیہ ماہانہ حاصل کرے۔
اور کسی کو اس سخاوت پر اطمینان حاصل ہوا ہو یا نہیں لیکن حاتم طائی کی روح ضرور تڑپ گئی ہو گی کہ اس سے بڑھ کر سخی بادشاہ کون آ گیا؟ شوکت ترین فرماتے ہیں کہ پیش کردہ منی بجٹ میں صرف 2 ارب روپے عوام پر بوجھ پڑے گا گویا باقی 350 ارب روپے بوجھ شاید بھارتی فوج پر پڑے گا۔ جو وطن عزیز کے عوام اطمینان رکھیں۔ پھر مزید فرماتے ہیں امریکہ کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں۔ تو پھر کیا ضرورت تھی Absolutely not کے بعد Absolutely obeyed ہونے کی۔
احساس عرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 400 ارب روپے واقعی اگر حکومت کسی کونے کھدرے سے نکال کر پنجاب کے عوام پر خرچ کرنا چاہتی ہے، اگر واقعی میچنگ شلوار قمیصوں، عینکوں، پشاوری چپلوں اور جیکٹوں کے خرچے میں سے 400 ارب بچا کر صحت کارڈ کا اہتمام ہو رہا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ بھٹو صاحب سے لے کر میاں نوازشریف، شہباز شریف تک جتنے سرکاری ہسپتال بنے ہیں یہ 400 ارب روپے ان ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے پر خرچ کریں۔ بلکہ میو ہسپتال، گنگا رام اور گلاب دیوی اور تقسیم ہند سے پہلے بننے والے ہسپتالوں پر خرچ کرے۔ ان ہسپتالوں کے عملے اور ادویات پر خرچ کرے۔ ان کا انفراسٹرکچر بہتر بنائے اور یہ جو ایک ہزار روپیہ فی خاندان سخاوت ہے اس کے بجائے دوائیوں، پٹرول اور دیگر ضروریات زندگی کو سستا کر دے تاکہ عام عوام کو فائدہ ہو سکے لیکن یہ سارے پروگرام کاغذی ہیں۔ سارے منصوبے نمائشی ہیں، سیاسی ہیں، بیان بازی اور سیاسی سکورنگ کے لیے ہیں۔ جبکہ حقیقت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ حکومت کیسے یہ سب کر سکتی ہے وہ تو 500 ارب روپے غریبوں کی گردن پر بوجھ ڈال کر ان کی گردن کا منکا توڑنے کے چکر میں ہے۔
کبھی سنا کرتے تھے کہ فلاں نے فلاں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے مگر یہ پہلا دور ہے کہ بیک وقت درجنوں ٹرک ڈیزرٹ دوڑ میں ریت، دھول اور مٹی اڑاتے پھر رہے ہیں۔ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا۔ پہلے ایک دائرے کا سفر تھا اب کئی دائرے ہیں۔ پہلے زمین پر انسانی زندگی کی بات ہوا کرتی تھی اب مریخ، زہرہ، زحل بھی زیر بحث ہیں۔ وزیر اعظم کو برانڈ بننے کا شوق چڑھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ڈرگز کا کاروبار عام تھا اور قدرے آسان بھی پھر ہر راستہ بند ہوتا گیا اور نئے راستے کھلتے گئے۔ پاکستان سے ایک شخص پپو نامی چرس سمگل کر کے باہر بھیجتا تھا، گورے کو اس کی چرس اتنی پسند آئی کہ اس چرس کا نام پپو برانڈ ہو گیا۔ پپو برانڈ کی چرس نمبر 1 پر آ گئی۔ اب ہم نے بھنگ کی کاشت کی ہے، ہو سکتا ہے ہماری بھنگ کا برانڈ بھی دنیا میں نمبر 1 پر آ جائے۔ ہمارے وزیر اعظم بھی برانڈ ہیں اور ان کی کارکردگی بھی برانڈڈ ہی کہلائے گی۔
بہر حال آج اس حیرت کے اظہار کے لیے قلم اٹھایا کہ نورا سکندکی والا اور بنارسی ٹھگ ماند پڑ گئے۔ سیاسی سکورنگ، ویڈیوز، آڈیوز، بیان حلفی، تردیدیں اور ڈیلوں کی صدائیں افواہیں عوام کا مقدر رہ گئیں۔ ان کی بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ کیا یہ افواہیں اور فوج کے ساتھ حکومت کے کاروبار کا اطمینان عوام کے دکھ دور کر دے گا۔
کیا یہی تبدیلی تھی۔ میاں صاحبان اور زرداری صاحب کو عمران کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی سیاست نے تمام پرانے سیاست دانوں کی سیاست زیرو میٹر سے شروع کر دی۔ ان کے ماضی میں کوئی خرابی، الزام، برائی تھی تو عمران حکومت نے ڈرائی کلین کر کے پہلے سے زیادہ مقبول کر دیا۔ صحت کارڈ، احساس پروگرام اور جعلی احتساب جو دراصل انتقام ہے موجودہ حکمران ٹولے کی سیاست ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ لہٰذا ایسے بے بنیاد اور واہیات بدنیتی پر مبنی پروگراموں پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی پیسہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے پر اور عوام کی بھلائی پر لگا کر ثواب دارین حاصل کریں۔
آخر پر ایک واقعہ لکھتا ہوں۔ یہ مجھے میرے ابا جی نے سنایا تھا کہ ایک دفعہ جمعہ کے دن ایک بکرے کو لاٹری میں رکھا گیا۔ ایک روپیہ لاٹری کی قیمت رکھی گئی۔ انتہائی سستے زمانے تھے۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے ایک روپیہ دے کر لاٹری میں نام ڈلوا لیا۔ بکرے کے پاس کھڑے لوگوں اور بکرے والے سے کہا کہ میں جمعہ پڑھ کر آتا ہوں اگر میرے بعد لاٹری نکلے تو کلچہ فروش خواجہ ڈڈو کریانہ مرچنٹ سے 4 آنے کا دانہ لے کر اس کو ڈال دینا اور چھاؤں میں باندھ دینا۔ اس کی غیر موجودگی میں لاٹری اس کا نام نکل آیا۔ لوگ اس کے انتظار میں کھڑے تھے کہ یہ کوئی ولی اللہ ہے اس کو الہام ہوا ہے جو اس نے چارے دانے اور چھاؤں میں باندھنے کی بات کی۔ بابا جب واپس آیا تو لوگوں نے اس کرامت کی وجہ پوچھی! اس نے جواب دیا، یہ دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ انسانوں میں دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ آج کل میرے دن اچھے ہیں۔ میں مٹی پکڑوں سونا ہوتی ہے۔ جب اللہ نہ کرے برے دن آئے تو پھر سونا مٹی ہو گا۔ میرا سچ جھوٹ ہو جائے گا۔
عمران خان کی لاٹری نکلی تھی مگر اب حکمرانوں کے سچ کو بھی لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ عمران خان کے جھوٹ کو سچ سمجھا جاتا تھا۔ اول تو توفیق نہیں مگر اب سچ کو بھی لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ جب ساتھی چھوڑ جائیں، جب وفا جسم کے کسی مسام میں بھی موجود نہ ہو اور لوگوں کو پتہ چل جائے تو پھر اعتبار کوئی نہیں کرتا پھر برانڈ کو بھی زوال آ جایا کرتا ہے لہٰذا اب یہ برانڈ بکنے کا نہیں۔