یہ بات بہت پرانی نہیں ہے۔ شاید صرف ایک نسل پہلے کا ذکر ہے جب گھر کا ایک خاص تصور ہوتا تھا۔ گھر کے تصور کی بنیادی خصوصیات میں تحفظ، اپنائیت، محبت، آپس کی عزت اور آزادی وغیرہ شامل تھے۔ ان سب اجزائے ترکیبی کے باعث گھر سکون اور سیلف رسپیکٹ کی علامت تھا۔ ان جذبات کے بغیر اگر کچھ لوگ ایک چھت تلے رہ بھی رہے ہوتے تو وہ گھر کے حقیقی تصور سے دور ہوتے تھے۔ اس لیے اسے گھر کے بجائے مکان کہا گیا۔ مکان کو گھر بنانے کی خواہش لے کر ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک کونے میں زمین حاصل کی اور اس کٹی پھٹی جگہ پر لٹے پٹے انسانوں نے مل کر اپنے گھر پاکستان کی تعمیر کا ارادہ کیا۔ 1947ء سے لے کر 2022ء کے آغاز تک تقریباً 74برس سے زائد عرصے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر پاکستانیوں پر اپنے گھر میں کیا کیا بیتی اس کا مطالعہ کریں تو تاریخ کے صفحات آنسوئوں میں بھیگے نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے یہاں کی خارجہ پالیسی آسیب زدہ ہوگئی۔ اسی کے نتیجے میں گھر کے سربراہ وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد اس گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنے ہی گھر والوں کے خلاف جوڑتوڑ اور محلاتی سازشوں کا آغاز ہوگیا۔ جب کسی نے اس گھر میں عزت مانگی یا اپنی مرضی سے رہنے کی خودمختاری چاہی تو اسے غدار کہا گیا۔ یوں سب سے پہلے بنگالی اس گھر میں اجنبی ہوگئے۔ گھر کے اندر اجنبیت کا سلسلہ پھر بھی رکا نہیں یوں ہی چلتا رہا۔ 1973ء میں آئین پر سب نے دستخط کردئیے مگر آپس میں اتفاق سے نہ رہ سکے۔ ایک ہی مذہب کے کئی خانے بنا دئیے گئے۔ بڑے اور چھوٹے صوبوں کے درمیان ایک دوسرے کا حق مارنے کی شکایتیں پیدا ہوئیں۔ یہ سب کچھ ایک ہی گھر کے اندر ہوتا رہا۔ صدی بدلی تو نفرت اور دشمنی کے رویئے بھی بدل گئے۔ دوسرے کو گولی سے مارنے کے بجائے بم سے مارا جانے لگا۔ دین کے نام پر اپنوں کے پرخچے اڑائے جانے لگے۔ سیاست میں مخالفین کو ووٹ کے بجائے خودکش حملے کے ذریعے ختم کیا جانے لگا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس پاک گھر
پاکستان میں بسنے والے ایک دوسرے کو کسی حد تک قبول کررہے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ہاتھوں ان کی جان، مال اور عزت محفوظ ہے۔ اس بڑے گھر کی تہذیبی توڑپھوڑ کے بعد اگر ہم انفرادی گھروں کا جائزہ لیں تو وہاں بھی پہلے والی خیر نہیں ملتی۔ مثلاً بچے کسی بھی گھر کا سب سے معصوم اور خوبصورت حصہ ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے بے فکری اور مستقبل کی امید کا نور جھلکتا ہے لیکن اب معاشرتی تنائو، گھریلو لڑائی جھگڑوں اور ماں باپ کی خواہش پر مقابلے کی دوڑ کی بھینٹ چڑھے ہوئے یہ بچے پھول کلیوں کی طرح کھلے ہوئے نہیں ہوتے۔ آپ بیشتر بچوں کو غور سے دیکھئے۔ ان کے چہرے پچاس سال قبل کے بچوں کی طرح دھلی ہوئی صبح کی مانند شفاف نہیں ہوں گے بلکہ معصومیت، بے فکری اور مسکراہٹ کے بجائے ان ننھے فرشتوں کی شکلوں پر سنجیدگی، فکر اور غصہ نظر آئے گا۔ میاں بیوی کو لیجئے۔ پہلے دونوں میں احترام کا رشتہ ہوتا تھا پھر اسے محبت کا نام دیا گیا۔ آہستہ آہستہ دونوں کے بینک اکائونٹ تو الگ ہوئے ہی ذاتی معاملات بھی علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔ اب دونوں کی اپنی اپنی پرائیویسی ہے۔ آگے چلئے۔ خاتون گھر کا مرکزی کردار ہوتی تھی۔ پہلے اس کا دھیماپن، صبروشکر کی عادت اور نرم مزاجی گھرکو جنت بنائے رکھتی تھی۔ یہی خاتون غصے کے جذبے سے ناواقف تھی لیکن یہ سب کچھ اب اکثر اوقات گھر کے بجائے گھر سے باہر نظر آتا ہے۔ دوسروں سے ملتے ہوئے، تقریبات میں شامل ہوتے ہوئے یا کام کی جگہ پر اپنے کولیگز سے میل ملاقات کرتے ہوئے عموماً بیشتر خواتین بہت خوش مزاج نظر آتی ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوتی ہے۔ نرم گفتاری اور دھیمے پن کا شاندار مظاہرہ کیا جارہا ہوتا ہے لیکن جونہی یہی خواتین اپنے گھروں میں داخل ہوتی ہیں تو ان پر جھنجلاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ نرمی اور دھیمے پن کی جگہ غصہ لے لیتا ہے۔ گھر سے باہر اپنے آپ کو بالکل فٹ ظاہر کرنے والی خواتین جب تک گھر میں رہتی ہیں تھکی تھکی رہتی ہیں۔ اسی طرح پہلے مرد گھر کے تحفظ، معاشی ضروریات اور مضبوطی کی علامت ہوتے تھے۔ اس کی بردباری اور زیرکفالت کنبے سے شفقت، اس کے احترام کا باعث ہوتی تھی۔ انہی کے سبب وہ گھر کا سربراہ کہلاتا تھا مگر اب اکثر مرد اپنے گھر میں موجود لوگوں کو اپنی رعایا تصور کرتے ہیں۔ گھر میں دھاڑتے اور غصے سے آگ بگولہ رہنا اکثر مردوں کی مردانگی ہے جبکہ گھر میں یہی ناقابل تسخیر مرد باہر کی دنیا میں بے حد ملنسار، صاحب متانت اور ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں۔ اپنے گھر کی خواتین اور بچوں کے سامنے آگ اگلتے ہوئے یہ توپ خانے جب باہر کسی صنف نازک سے ملتے ہیں تو گل وگلزار ہوتے ہیں۔ مونچھوں کے نیچے ہنستے دانت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ صاحب گھر کی دہلیز میں داخل ہوتے ہی سڑیل پن کا عالمی ایوارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ گھر کے بیشتر سربراہ جو گھر سے باہر بے حد مہذب اور انسانی حقوق کے علمبردار ہوتے ہیں گھر میں بھٹہّ مالکان کی طرح رہتے ہیں۔ تہذیبی تبدیلیاں ہمیشہ سے ہوتی آئی ہیں اور یہ ضروری بھی تھیں۔ تب ہی ایک جدید اور مہذب معاشرے کا قیام ممکن ہوسکا ورنہ حضرت انسان اب بھی پرانے انسانوں کی طرح پتوں سے جسم ڈھانپتا، درختوں اور غاروں میں رہتا لیکن ہمارے ہاں تہذیبی تبدیلی کے نام پر کچھ اور ہی ہوا ہے جس کی وجہ سے باہمی اعتماد، رحم دلی اور امن جاتا رہا ہے۔ آج بچوں کے پاس شعور، علم اور جدید ٹیکنالوجی موجود ہے مگر ان کے چہروں پر تازگی کے بجائے صدیوں کی مسافت کے اثرات نمایاں ہیں۔ آج میاں بیوی دو پہئے تو ضرور ہیں مگر ایک ہی گاڑی کے نہیں بلکہ ساتھ ساتھ کھڑی دو علیحدہ علیحدہ گاڑیوں کے ہیں۔ آج خاتون پہلے سے زیادہ بااختیار، آزاد، باشعور، تعلیم یافتہ اور صحت مند ہے مگر گھر کی جنت کی صحت خراب ہوچکی ہے۔ آج مرد اپنے ہی گھر میں ایک حملہ آور فاتح کی طرح رہتا ہے۔ ان سب حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ہم سب گھروں کے بجائے مکانوں میں رہتے ہیں۔ ہم نے 2022ء کے آغاز میں بہت سی دعائیں مانگی ہوں گی لیکن نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کردے