کسی بھی ریاست میں سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کو خاص اولیت حاصل ہوتی ہے، یہی وہ افرادی قوت ہے جس سے سرکاری مشینری کا پہیہ گھومتا ہے، سرکاری احکامات کی ترسیل سے لے کر ان پر عملدرآمد تک اور پالیسی سازی سے لے اسکی تکمیل تک مرکزی کردار ملازمین ہی کا ہوتا ہے، تاج برطانیہ کا فراہم کردہ انتظامی ڈھانچہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ من وعن نافذالعمل ہے، وہ قواعد و ضوابط جوبرطانوی سرکار نے طے کئے تھے، بیشتر اب بھی سول سرونٹس ایکٹ کے نام سے موجود ہیں، ملازمین کی مراعات کے علاوہ تقرری، سزا اور جزا کے قریباً ملتے جلتے قوانین اب بھی دفتری امور کا حصہ ہیں۔
جس طرح ملکی قوانین میں بہتری کی بہت سی گنجائش باقی ہے اسی طرح سرکاری ملازمین کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی ضرورت ہے، تاج برطانیہ نے تو اپنا رُعب اور دبدبہ قائم کرنے کے لئے ایسی دفتری فوج تیار کی تھی جو اس کے مقاصد کو پورا کرتی رہے، ہمارے مقتدر طبقہ نے بھی مکھی پر مکھی مارنے کی کاوش کی اور بہت سے نقائص سے صرف نظر کیا، جسکا فائدہ ہر طاقت ور فرد اور گروہ نے اٹھاکر مالی اور اختیاراتی مفادات سمیٹے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اس قماش کے افراد نے اپنے اپنے فائدہ کے لئے از خود وہ قوانین مرتب کئے جس سے انکی نسلوں کا مستقبل بھی سنور سکتا تھا،اس ماحول کو دیکھتے ہوئے سرکاری ملازمین نے اب اپنے اپنے طبقات بنا لئے، مالی مراعات سے لے کر رہائشی مفادات تک کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی بھی کر لی گئی، جس طرح سماج کئی اعتبار سے منقسم ہے، ملازمین کے مراعات کے حوالہ سے بھی کئی گروہ ہیں، ہمہ قسم کے تفاوت کی بنا پر ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے ،اس ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔
اچھا ہوتا کہ قیام پاکستان کے بعد جہاں نئے قوانین وضع کئے جاتے وہاں ملازمین کی تربیت بھی ایک اچھے شہری کے طور پر کی جاتی، اخلاقی اصول بتائے جاتے، حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا جاتا، جب ملازمین نے دیکھا کہ ہر طاقتور فرد بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے تو انھوں نے اپنا احساس محرومی ختم کرنے کے لئے اپنی مٹھی گرم کرانے کی طرح ڈالی، جس کی برکت سے اب ہمارا شمار دنیا کی بدعنوان ریاست میں ہوتا ہے، اس کلچر کے خاتمے کے لئے اینٹی کرپشن، نیب، ادارہ احتساب
جیسے شعبہ جات بنائے لیکن اب بھی سرکاری ادارہ جات کے کروڑوں روپے کے مالی سیکنڈل میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی ملازمین کی تعداد کے ساتھ ساتھ سرکار کو اپنا مالی وزن پرائیویٹ اداروں کے کاندھوں پر ڈالنا چاہئے تھا، پنجاب آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اس کے ملازمین کی تعداد بھی زیادہ ہے، انکی فلاح و بہود کے لئے اِنکی تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی کی جاتی ہے، اس رقم کی نگرانی کے لئے ایک شعبہ Benevolentfund کے نام سے صوبائی صدر مقام کی ایک معروف عمارت’’ الفلاح بلڈنگ ‘‘میں واقع ہے، ماہانہ کٹوتی کی رقم سے ادارہ ملازمین کی فوتیدگی،بچوں کے وظائف، ریٹائرمنٹ، ان کے والدین کے وفات پر تجہیز وتدفین کے اخراجات،بیٹی کی شادی پر مالی امداد فراہم کرتا ہے، ایک ملازم زیادہ سے زیادہ دو بچوں کے وظیفہ کی درخواست کر سکتا ہے صرف ان بچوں کو وظیفہ کی رقم ملتی ہے جن کے نمبر60فیصد یا اس سے زائد ہوں، یہ قدغن بھی غیر ضروری اور نامعقول ہے، جن ملازمین کے بچے نہیں یا اہل نہیں،جو ملازمین مردوخواتین دوران ملازمت شادی ہی نہیں کرتے انھیں بچوں سے متعلق کوئی مالی مراعات نہیں ملتی نہ اس بابت کوئی ہدایت موجود ہے۔
طویل عرصہ بھاری بھر رقم تنخواہ سے منہا کرانے کے بعد بھی یہ ٹرسٹ انھیں کچھ ادا نہیں کر تا، یہ بھاری بھر سرمایہ کہاں جاتا ہے اس بابت راوی خاموش ہے، اس طرح دوسرا بڑا معاملہ ملازمین کی تنخواہ سے انشورنس کی رقم کی کٹوتی ہے، عدالت عظمیٰ کا ملازمین کو انشورنس کی رقم ادا کرنے کا فیصلہ آ بھی چکا ہے مگر ہر صوبہ اس پر تاحال عمل درآمد نہیں کر رہا، لہٰذا حسب سابق ملازمین کو دیگر حقوق کی طرح اس کے حصول کے لئے سڑکوں پر مارچ کرنا پڑ رہا ہے، تیسرا اہم مسئلہ مکانات کی فراہمی کا بھی ہے، پرویز الٰہی کی پنجاب حکومت نے ہائوسنگ فائونڈیشن اسمبلی ایکٹ کے تحت قائم کی، ملازمین کی تنخواہ سے باقاعدہ کٹوتی کی جارہی ہے ،پہلے بنے بنائے مکانات دینے کا معاہدہ ہوا ،اب پلاٹ سکیل کے مطابق دینا طے ہوا ہے، ملازمین میں اس پالیسی پر بھی تحفظات پائے جاتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے کئی سال بعد بھی بعض کا قرعہ اندازی میں نام نہیں آتا اگر آ بھی جائے تو دوسرے شہر میں آتا ہے، اس پیرانہ سالی میں کیا مشکلات ملازمین کو درپیش ہوتی ہیں کیا فائونڈیشن کے ذمہ دار اس سے آگاہ نہیں؟اگر اعلیٰ عدلیہ، عسکری ادارہ جات، افسر شاہی کو ملازم کی حیثیت سے سرکاری پلاٹ مل سکتا ہے تو سارے صوبائی ملازمین کو کیوں اس نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے؟
ہماری دانست میں بدلتے زمانے کے ساتھ سرکار کو اب مالی بوجھ سے آزاد ہونا چاہئے جس طرح باقی دنیا میں انشورنس کمپنیاں ملازمین کو ہمہ قسم کی مالی سکیورٹی دیتی ہیں، بنک مکانات کی فراہمی کے لئے پیسہ عطا کرتے ہیں، بچوں کی شادیوں کے لئے سرمایہ دیتے ہیں، انکی تعلیم اور کسی حادثہ کی صورت میں رقم دیتے ہیں ، پالیسی میچور ہونے پر انکی حیاتی ہی میں بھاری بھر سرمایہ دے کر انکا مستقبل محفوظ کر تے ہیں، اس طرح کی پالیسی ہماری سرکار کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے، اب تو علماء کرام نے تکافل کو شرعی طور پر جائز قرار دیا ہے، سرکار پنشن ختم کرنے کے بجائے اپنے مالی بوجھ کو تقسیم کر دے اور کمپنی ایکٹ کے تحت انشورنس کے کلچر کو فروغ دے اس سے ملازمتوں کے بہت سے نئے مواقع میسر آئیں گے، نیز ابتدا ہی سے تکافل پالیسی کے تحت قرضہ مکان کے لئے ملازمین کی تنخواہ سے ما ہانہ کی بنیاد پر کٹوتی سے یہ سہولت دے ، جس طرح یورپی ممالک میں تارکین وطن کو مکانات کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ انشورنس کمپنیز سرکار سے زیادہ بہتر مالی مراعات ملازمین کو بغیر احتجاج کے دے سکتی ہیں۔
گمان کیا جاتا ہے اس نوع کی مراعات دلوانے کے لئے اگر سرکار قانون سازی کرے، اور ملازمین کو بچوں کی تعلیم، مکان کی خرید،حادثہ میں رقم کے خوف سے آزاد کر دے تو انھیں اپنی مٹھی گرم کرنے کا خیال کم ہی آئے گا، یہی مراعات پرائیویٹ ملازمین کو دینے کے لئے سرمایہ داروں کو آمادہ کر لیا جائے تو سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے جاری ناجائز دوڑ دھوپ میں بھی کمی آئے گی۔
پنجاب کے ملازمین جن کے بچے نہیں ہیں یا جو شادی شدہ نہ ہیں ان کی تنخواہ سے باقاعدہ کئی سال سے بیونیولنٹ فنڈ کی مدمیں کٹوتی کی رقم کہاں ہے؟ اس کا فائدہ ان ملازمین کیوں نہیں دیا جارہا اگرقانون سازی درکار ہے تو ملازمین کی ایسوسی ایشنز سرکار کی معاونت کریں۔
بجٹ کی آمد سے قبل دفتروں میںہڑتال کا کلچر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ احتجاج کے بغیر ملازمین کو مالی فائدہ دینے کو سرکار ضروری نہیں سمجھتی، حالات ،ملازمین کی تعداد اور زمینی حقائق کی روشنی میں سرکاری ملازمین کی اضافی مالی مراعات کے قوانین میں ترمیم کر کے سرکار اپنے مالی بوجھ کو کم سے کم کرے۔