اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں وکیلوں پر کیے گئے حملے میں قتل عام پر لیے گئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا، دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہزارہ والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں، ہزارہ قبائل کی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے سوال اٹھایا کہ تفتان سے چلنے والے اسلحے کے ٹرک کو جب حیدر آباد میں پکڑا جائے تو راستے میں آنے والی چیک پوسٹوں پر کیا ہوتا ہے، اداروں کو جواب دہ بنایا جائے
ازخود نوٹس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ، دوران سماعت کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا جبکہ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ صوبائی حکومت دہشتگردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی، ہائی کورٹ نے 2012 میں فرانزک لیب کے قیام کی ہدایت کی تھی، قانون سازوں کو آئین بھی پڑھا دیں، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے سانحہ کوئٹہ کے ملزمان کو ٹریس کیا، ہر سانحہ پر تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ جج فراہم نہیں کر سکتی، تحقیقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے ،جسٹس دوست محمد نے کہا کہ فرانزک لیب کیلئے مختص کروڑوں روپے ہضم ہوگئے، کمیشن سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونا بھی جرم ہے، سترہ سال سے دھماکے ہو رہے، صوبائی حکومت سوئی رہی، ہر بجٹ میں پانچ ملین بھی لگاتے تو فرانزک لیب تیار ہوچکی ہوتی ،عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی کارکردگی ہر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ کو رپورٹ پڑھنا نہیں آ رہی تو عملدرآمد کیا ہوگا ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں سابق وزیر داخلہ کے حوالے سے ذاتی ریمارکس دیے گئے، عدالت رپورٹ سے ریمارکس حذف کرے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیشن رپورٹ عدالت کا فیصلہ نہیں ہے، آپ کے نقطے کا جائزہ لیں گے ، بلوچستان بار کے وکیل نے کہا کہ چوہدری نثار نے کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ملاقات کیوں کی؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے میں نہیں جائیں گے، جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ آج کل مارکیٹ میں ایک چورن بہت تیزی سے بک رہا ہے ،ہزارہ قبائل کی جانب سے نسل کشی پر جوڈیشل تحقیقات کی استدعا کی گئی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت ہزارہ برادری کے مسائل پر توجہ دے۔