بیجنگ: چین میں عرصہ دراز سےایک بچے کی پالیسی اور خواتین کی تعداد کم ہونے کے بعد اب یہ حال ہے کہ 118 مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 100 ہے۔ اس نئی صورتحال پر وہاں غریب کنواروں کے لیے شادی کرنا ایک خواب بن گیا ہے کیونکہ چینی رواج کے مطابق مرد کی جانب سےدلہن کو لاکھوں روپے کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران خصوصاً چین کے دیہی علاقوں میں دلہن کی قیمت سینکڑوں سے ہزاروں یوآن تک جاپہنچی ہے جو لاکھوں پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ اسی لیے شادی کے خواہشمند افراد بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ چین میں دلہنوں کی قیمت لگانا ایک صدیوں پرانی رسم ہےجو کمیونسٹ عہد میں بھی بڑھتی رہی۔ اس میں دولہے کو لڑکی کے والدین کو ایک مناسب قیمت ادا کرنا ہوتی ہے جس کے بعد اسے شادی کی اجازت ملتی ہے۔ 1960 سے 1980 کے عشرے تک تھرماس جیسےسادہ تحفے سےبھی لڑکی کا ہاتھ مل جاتا تھا پھر بات ٹی وی اور ریفریجریٹر تک پہنچی اور اب معاشی ترقی سے دلہن کےاہلِ خانہ لاکھوں روپے نقد مانگ رہےہیں۔
اصل میں چینی عوام کو اپنے ہی کیے کا صلہ مل رہا ہے۔ معاشرے میں مردوں کی پیدائش کی حوصلہ افزائی عروج پر رہی اور رحمِ مادر میں لڑکی کی شناخت پر اسےمارڈالنےکے عمل سے اب مرد و زن کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے اور اب وہاں مرد ذیادہ اور لڑکیاں کم ہے۔
اب یہ حالت ہےکہ چین میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ہزاروں افراد شادی کے منتظر ہیں۔ ایک خاتون سے 20 مرد شادی کے خواہشمند ہیں اور یوں دلہن کی قیمت تیزی سے اوپر جارہی ہے۔ حال ہی میں ایک دیہاتی کنوارے نےدلہن کےخاندان کو پاکستانی 20 لاکھ روپے ادا کئے ہیں۔ دوسری جانب چین میں خواتین کی بڑی تعداد اعلیٰ ترین عہدوں پر موجود ہیں جو شادی کرکے اپنا کیریئر تباہ کرنے کی بجائے ذاتی ترقی کو ترجیح دیتی ہیں۔اسی طرح چین کے بڑے شہروں میں شادی کے لیے دلہن کے والدین کو 5 سے 20 لاکھ روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔