ہمارے برخوردار عبداللہ بن اظہر نوخیز ڈاکٹر ہیں، سیاسی خبروں اور تبصروں سے باخبر رہتے ہیں، کل خبریں دیکھتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہنے لگے، یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا، میں سوچ رہا ہوں کہ اپنا بندوبست باہر کر لوں۔ یہ پہلا جملہ نہیں جو آج کل سننے میں آ رہا ہے۔ ملک میں ناانصافی، معاشی کساد بازاری اور معاشرتی افراتفری دیکھ کر اکثر نوجوان یہی کچھ سوچتے اور کہتے نظر آئے ہیں۔
اب اس جیسے نوجوان کو کیسے سمجھائیں کہ یہ سوچ سراسر خودغرضی پر مبنی ہے۔ یہ میدان سے بھاگنے والی بات ہے۔ یہ مایوسی کی بات ہے…… اور مایوسی کفر ہے۔ عالی ہمت امید کے دیے جلاتے ہیں۔ وہ مشکل وقت میں اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں، اور یوں دوسروں کے لیے ہمت کا باعث بنتے ہیں۔ اگر ہر شخص ہی ایسی خود غرضانہ سوچ اپنا لے تو ملک قابل لوگوں سے خالی ہو جائے گا۔ ملک سڑکوں اور عمارتوں کا نام نہیں ہوتا بلکہ ایک سوچ اور نظریے کے حامل لوگوں کے زیرِ نگیں خطے کا نام ہوتا ہے۔ انسان کی پہچان اس کا خیال ہے، اس کا نظریہ اور سوچ ہے۔ یہ سوچ مادی بھی ہو سکتی ہے اور دینی و روحانی بھی۔ اگر سوچ مادی ہو تو پھر ہرگز کوئی گلہ نہیں، کوئی سوال نہیں اور کوئی جواب نہیں۔ پھر گویا کام سیدھا ہے، یعنی چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو۔ دل کی بات پر ٹھہرنے والوں کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے، شکم کی آواز پر چلنے والوں کے لیے قطعی کوئی مشکل نہیں، جدھر ہری ہری گھاس ہو، بس وہاں چل دیے اور چر دیے۔ ساری مشکل انسان بننے میں ہے یا پھر انسانوں کی بستی بسانے میں۔
ہم جن ملکوں کی عظمت کے گن گاتے ہیں، وہ راتوں رات عظیم نہیں ہوئے۔ ان ملکوں کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ کتنی ہی صدیوں کی تگ و دو کے بعد انہیں حقیقی آزادی کی فضا نصیب ہوئی ہے۔ یورپ نے پاپائیت اور شہنشایت کے گٹھ جوڑ کے خلاف جد و جہد میں کتنی ہی نسلیں جھونک دیں، تب کہیں عام عوام میں عدل، انصاف اور آزادی کا شعور بیدار ہوا۔ امریکہ میں مغربی اور مشرقی ریاستوں کے درمیان کتنے عشروں تک خون ریز جنگ جاری رہی، ایک طرف غلامی کی حامی ریاستیں تھیں اور دوسری طرف غلاموں کی آزادی کے داعی لوگ تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح ہمیشہ آزادی کی
ہوتی ہے، غلامانہ طرزِ فکر جنگ سے پہلے ہی مفتوح ہو جاتا ہے۔ قوموں کی تعمیر میں کئی نسلوں اور صدیوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ اپنے حوصلے پست نہیں کرتے۔ جسم کی چند روزہ آسائش کے بجائے روح کی ہمیشہ کی سرشاری کی جا تلاش کرتے ہیں۔ ممکن ہے، اپنی جان بچا کر، اپنی صلاحیتوں کی قیمت مارکیٹ کے مطابق وصول کرنے کے بعد تمہیں قدرے انصاف پا لینے کا احساس ہو، لیکن احسان کی لطافت سے ہمیشہ کے لیے دوری ضمیر میں ایسا کانٹا لگا دے گی کہ ہر سانس کے ساتھ ایک چبھن کا احساس ہو گا…… اور یہ روح کی پھانس ایسی ہو گی، جسے تم بیان نہیں کر سکو گے۔ روح کے زخم کسی معالج کے سامنے بیان نہیں ہو سکتے۔
یاد رکھو! جہاں جس قدر اندھیرا زیادہ ہوتا ہے، وہاں روشنی کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ظلم ظلمت ہے…… اندھیرا ہے…… اندھیروں سے بھاگتے نہیں …… بلکہ کھڑے رہتے ہیں۔ جب لوگ کھڑے ہو جائیں اور کھڑے رہیں تو اندھیرے الٹے پاؤں بھاگ جاتے ہیں۔ انسان خود ایک روشنی ہے…… یہ ظلمت کدوں میں اُمید کے دیے جلانے پر مامور ہے۔ انسان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اندھیروں سے خوف زدہ ہو جائے۔
حق کو چاہنے والا، حق پر چلنے والا حق کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے…… اور حق پر کھڑا ہو جانے والا انسان حق کا نمائندہ بن جاتا ہے…… اب وہ جدھر بھی پایا جائے گا باطل اس کی موجودگی کی خبر پا کر غائب ہو جائے گا۔ اندھیرے اپنی خُو نہیں چھوڑتے…… روشنی اپنی خُو بُو کیوں ترک کرے۔ حق سمجھوتا نہیں کرتا ہے، حق مداہنت کا قائل نہیں۔ حق کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی پر نہیں چلتا۔ اقبال چاہتے ہو تو اقبالؒ کی سنو!
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانِ حق و باطل نہ کر قبول
اگر تم جان گئے ہو کہ تم حق کے راستے پر ہو تو پھر اس راستے سے واپس ہونا ناحق ہے۔ سچ پوچھو تو واپسی کے راستے کے متعلق سوچنا بھی غداری ہے۔ اب غداری کی تعریف بھی سن لو۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینا غداری ہے۔ اپنا مستبقل محفوظ کرنا ذاتی مفاد ہے، ملک کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کرنا قومی مفاد ہے۔ اب خود سوچ لو! تم اپنے مستقبل کے متعلق سوچ رہے ہو یا ملک کے مستقبل کے متعلق؟
اسی سوچ کے حامل ایک دانشور سٹڈی گروپ میں فتویٰ دے رہے تھے کہ موجودہ حالات میں ”ہجرت“ کر لینی چاہیے۔ اپنے موقف کو وہ اس قرآنی آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جب فرشتے ان کی جانیں قبض کریں گے تو ان سے کہیں گے تم نے ہجرت کیوں نہ کی، اللہ کی زمین وسیع تھی۔ اب موصوف نے اس آیت کو سیاق و سباق سے مکمل ہٹ کر کوٹ کیا ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جو دارالکفر میں رہے اور ایمان نہ لائے، وہ ایمان نہ لانے کی وجہ اپنے زمینی حالات کی مجبوری بتاتے رہے۔ موت کے فرشتوں کا مکالمہ ایسے لوگوں سے یوں ہے کہ تم دارالایمان کی طرف ہجرت کیوں نہ کر گئے۔ ہجرت ایک دینی اصطلاح ہے، اور یہ دارالکفر سے دارالایمان کی طرف ہوتی ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہجرت کے متعلق واضح طور پر فرمایا گیا ہے، مفہومِ حدیث یوں کہ جس نے اللہ اور رسولؐ کے لیے ہجرت کی وہی مہاجر ہے، اور جس نے دولت اور عورت کے لیے ملک چھوڑا وہ مہاجر نہیں …… یعنی اس کی کوئی ہجرت نہیں۔
اللہ کے نام پر لیا گیا یہ ملک ایک مسجد کی طرح ہے…… مسجد کی تعمیر ادھوری چھوڑ کر راہِ فرار اختیار نہیں کرتے۔ یہاں غبن اور بدعنوانی کرنے والے ایسے ہیں جیسے مسجد کے گلے سے پیسے چرانے والے بدبخت لوگ۔ مسجد آباد رہتی ہے، مسجد کے پیسے چوری کرنے والے ویران ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے اس ملک سے وفا کی، وہ کامیاب ہوئے، سدا بہار ہوئے۔ جنہوں نے اسے دغا دیا، ان کی نسلیں بھی داغدار ہوئیں۔
جس نے محبوب وطن کی ہے اڑائی مٹی
واصفؒ اس شخص کی ہو ساری کمائی مٹی
ظلم اور ظلمت کے باب میں یاد رہے کہ ہر شخص اپنی جگہ روشنی کا دیا لے کر کھڑا رہے…… ظلمتیں خود ہی پسپا ہو جائیں گی۔ استقامت شرط ہے، کامیابی قدم چومے گی۔ نور کے عارفوں نے اس ملک کو نور کہا ہے۔ نور سے مراد یہ ہے کہ یہاں ظلم اور ظلمت نہیں ہو گی…… نہیں ہونی چاہیے…… ظلم اور ظلمت کے اندھیروں کو دور کرنے سے نور ظاہر ہو گا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ تمہارا مستبقل روشن ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ روشن مستبقل کے لیے کام کرو۔ حال میں جد و جہد کرو تاکہ حال اور خیال کے اندھیرے دور ہوں اور روشن مستبقل روشن تر ہو کر تمہارے سامنے آ جائے۔