پاکستان میں 10 اقلیتیں بستی ہیں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے جبکہ سب سے کم تعداد پارسیوں کی ہے اس کے درمیان بہائی، بدھ، ایتھیسٹ، سکھ، احمدی اور عیسائی بستے ہیں۔ بلودی بھی تھوڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ”دیگر مذاہب“ کے نام سے غیرمعروف مذاہب یا عقائد کے ماننے والے بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کی زیادہ تر آبادی سندھ میں جبکہ دینِ عیسوی کے ماننے والوں کی اکثریت پنجاب میں بستی ہے ہمارے ہاں عیسائی اہمیت رکھتے ہیں سماجی اعتبار سے بھی اور مذہبی اعتبار سے بھی۔ انگریز یہاں حاکم رہے وہ مذہباً عیسائی تھے دیگر یورپی اقوام کی اکثریت بھی دینِ عیسوی کی پیروکار ہے۔ اس وقت امریکہ عالمی امور میں سکہ رائج الوقت ہے اس سے پہلے تاج برطانیہ کا سکہ پوری دنیا پر چلتا تھا یہ دونوں عظیم طاقتیں مذہباً عیسائی ہیں یہاں برصغیر پاک و ہند میں 1857 تا 1947 یعنی 90 سال تک برطانوی راج قائم رہا انگریزوں نے یہاں مغربی سیاست کے علاوہ عیسائی مذہب کی ترویج کی بھی کاوشیں کیں آج ہم دیکھتے ہیں کہ عیسوی چرچ اور اس سے وابستہ املاک بڑی قیمتی اور اعلیٰ ہیں شہروں کے مراکز میں واقع ہیں مسیحی تعلیمی ادارے اور شفاخانے بھی اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ اس دور کی دین بھی ہے اور یادگاریں بھی۔ انگریزوں میں مذہبی تعصب اس قدر مستحکم نہیں تھا جس قدر رنگ و نسل کی برتری کا شعور، یہاں کے عیسائی ان کے ہم مذہب ضرور تھے لیکن ان کی رنگت و نسل انگلش نہیں تھی اس لئے دیسی عیسائیوں میں وہ تنظیم و شعور پیدا نہیں ہوا جو انگریز قوم کا شاخسانہ تھا قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بسنے والے عیسائی اسی سرزمین کے ہو گئے ان کی وفاداریاں، اس مٹی کے ساتھ پہلے بھی جڑی ہوئی تھیں قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کے ساتھ جڑ گئیں اور ہنوز ایسا ہی ہے۔ عیسائی ہماری سماجی، سیاسی اور ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔
کامران مائیکل ہماری اسی کمیونٹی کا ایک روشن ستارہ ہیں آپ ایک حقیقی سماجی کارکن، سیاستدان اور کمیونٹی کے مسائل بارے سوچ و بچار کرنے والے پڑھے لکھے جواں عزم و ہمت شخصیت ہیں اپنے سماجی و سیاسی سفر کا آغاز بلدیاتی کونسلر کا الیکشن لڑ کر کیا۔ پھر ڈسٹرکٹ کونسل میں فعال ہو کر اپنی کمیونٹی کے مسائل کو حل کرنا شروع کیا۔ صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ آج کل پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ
پر سینیٹر ہیں۔ محمد نوازشریف کے چاہنے والوں کی صف اول میں کھڑے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ دسمبر 2022 میں آپ نے لندن جا کر نوازشریف کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دی کیک کاٹا پھر نوازشریف کے ساتھ مل کرکرسمس کیک بھی کاٹا۔
کامران مائیکل اپنی کمیونٹی کے مسائل کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہیں اور ان کے حل کے حوالے سے ہمہ وقت مصروف عمل بھی رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگے مسیحیوں کی صفحوں میں اتحاد وقت کی انتہائی ضرورت ہے حکومت کو جب بھی کسی کمیونٹی کے حوالے سے معاملات طے کرنا ہوتے ہیں تو وہ اس کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم سے رابطہ کرتی ہے جیسے ہندوؤں کے مسائل کے لئے ہندو کونسل سے معاملہ کیا جاتا ہے کرسچئن کمیونٹی کا کوئی بھی ایسا متحدہ یا مشترکہ پلیٹ فارم نہیں ہے جو ان کی حکومتی سطح پر، ریاستی سطح پر نمائندگی کر سکے۔مسیحی نمائندے اپنے طور پر، اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے مسیحی حقوق کے لئے کاوشیں کرتے رہتے ہیں۔اس مقصد کے لئے ”پاکستان کرسچئن کونسل“ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ کونسل کسی بھی سیاسی یا فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر تمام مسیحیوں کی نمائندگی کرے گی اور ان میں اتحاد و اشتراک کے ذریعے انہیں معاشرے میں بہتر مقام دلانے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔
ویسے تاریخی اعتبار سے یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مسیحی نہ صرف پاکستان کے وفادار ہیں بلکہ پاکستان کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں جسٹس کارنیلیس ہوں یا ایئرفورس کے سیسل چودھری اور ایسے ہی بہت سے نمایاں نام ہیں جو پاکستان کے جاری نظام میں اپنا اپنا کردار ادا کرکے مثال بن چکے ہیں۔ شعبہ تعلیم اور صحت میں کرسچئن کمیونٹی کی خدمات کسی بھی دوسرے پاکستانی سے کم نہیں ہیں۔ شعبہ نرسنگ میں ہماری کرسچئن خواتین ایک خاص نام اور مقام رکھتی ہیں سروس سیکٹر ہو یا سوشل سیکٹر کرسچئن کمیونٹی پاکستان کی تعمیروترقی میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں یہ کمیونٹی کسی بھی دوسری محب وطن کمیونٹی سے کم نہیں ہے۔
کامران مائیکل کے بقول ہزاروں نہیں لاکھوں کرسچئن ہنرمند، سماجی کارکن، سیاسی ورکر، صحافی، سرکاری ملازمین اور دیگر پیشہ ور خواتین و حضرات پاکستان کے طول و عرض میں مصروف عمل ہیں۔ اپنے اپنے تئیں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن ان کے درمیان روابط نہیں ہیں، ان کے مسائل لاینحل ہیں انہیں جس طرح آگے بڑھنا چاہئے وہ بڑھ نہیں پا رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں یہ سب اکٹھے ہو سکیں، ایک دوسرے کو جان سکیں۔ پاکستان کرسچئن کونسل کا قیام اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس حوالے سے کامران مائیکل کا کہنا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر لی گئی ہے۔ تمام کرسچئن کمیونٹیز کے رہنماؤں اور سرکردہ لوگوں کے ساتھ نہ صرف مشاورت کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے بلکہ سب کو آن بورڈ بھی لے لیا گیا ہے۔ اگلے مہینے کی 31 تاریخ یعنی 31 مارچ بروز جمعتہ المبارک کونسل کے باقاعدہ قیام کے لئے ملک گیر کنونشن طلب کر لیا گیا ہے جس میں کمیونٹی کے تمام سرکردہ افراد، پیشہ ور افراد، صحافی، وکلا، سرکاری ملازمین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد جمع ہوں گے اور کونسل کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کنونشن میں مغربی یورپی ممالک کے سفراء کو بھی شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے تاکہ وہ بھی شریک ہو کر خود دیکھ سکیں کہ پاکستان ایک روشن خیال اور پرامن ملک ہے جہاں اقلیتیں ملک کی تعمیروترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ پاکستان کے آزاد شہری کے طور پر امن و چین کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ انہیں سیاست کرنے اور تنظیم بندی کے حقوق بھی حاصل ہیں اور مغربی ممالک میں پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈہ قطعاً غلط ہے۔
پاکستان کرسچئن کونسل کے قیام کا فیصلہ ایک مستحسن عمل ہے جو پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے اور اسلاموفوبیا کا عملی تدارک کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ کامران مائیکل بذات خود بھی سافٹ آدمی ہیں گفتگو بھی بڑی سافت کرتے ہیں اپنی بات بڑے سافٹ اور سپاٹ انداز میں کر گزرتے ہیں۔ اپنی کمیونٹی کو اکٹھا کرنے، آگے بڑھانے کا عمل بھی بڑے سافٹ انداز میں کر رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم کو بلند کرنے اور اس کا سافٹ امیج بلند کرنے کے لئے کرسچئن کونسل اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کونسل کے قیام کا بیڑا اٹھانے اور اسے لے کر چلنے اور چلتے رہنے کا عزم کرنے کے لئے کامران مائیکل کو مبارکباد۔ ویل ڈن۔ مائیکل۔