کچھ روز قبل فرائض منصبی کی ادائیگی کے لئے ایل ڈی اے لا ہور کے مرکزی دفتر جانا ہوا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے ابھی اس سے نکلا ہی تھا کہ اتنے میں کار پارکنگ کا ایک ملازم قریب آیا۔ پارکنگ کی فیس سے کچھ زائد پیسے دیے تو وہ ملازم بہت خوش ہوا۔ کہنے لگا صاحب! اللہ آپکو غازی کرے۔میں تھوڑاحیران ہوا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی میں تو ایل ڈی اے کی بلڈنگ میں جارہا ہوں کوئی جنگ تو نہیں کرنے جارہا کہ تم مجھے غازی کا مرتبہ حاصل کرنے کی دعا دے رہے ہو۔ نوجوان ملازم نے تھوڑا توقف کیا اور بولا صاحب!آپ اچھے آدمی لگتے ہیں تاہم اس بلڈنگ میں بیٹھنے والے بیشتر افسران و ملازمین اتنے اچھے نہیں ہیں۔میں نے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔ کہنے لگا جناب یہاں کوئی بھی کام پیسے بغیر نہیں ہوتا۔یہ خدا کو بھولے ہوئے ہیں۔ میں یہاں روزانہ لوگوں کو دھکے کھاتا دیکھتا ہوں۔ لوگ پیسے بھی دیتے ہیں اورذلیل و رسوا بھی ہوتے ہیں۔ انہیں مخلوق ِ خدا کی تکلیف کا رتی بھر بھی احساس نہیں۔ اگر یہاں سے کوئی بغیر پیسے دیے کام کرا لے تو ہم اسے غازی کہتے ہیں، ویسے مجھے یہاں پارکنگ میں کام کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ ہونے کو آیا میں نے خال خال ہی کسی کو یہاں سے غازی بن کر نکلتے دیکھا۔ لاہور شہر اس وقت کنکریٹ اور سریے کا جنگل بن چکا ہے جو ورلڈ انڈیکس پر فضائی آلودگی میں صف اول کے شہروں میں شامل ہوچکا ہے۔یعنی لاہور کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد عوام اس وقت اپنے پھیپھڑوں میں وہ زہر سانس کے راستے دھکیل رہے ہیں جس کے باعث جلد یا بدیر ہر دوسراشخص ہسپتالوں میں علاج کراتا نظر آئے گا۔ ان سب کی ایک بڑی وجہ ایل ڈی اے کا ٹاؤن پلاننگ کا شعبہ بھی ہے جس نے وسیع زرعی رقبہ کو سیکڑوں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
کرپشن، اقربا پروری اور مافیا کے یہاں راج نے ایل ڈی اے کا عمومی طور پراور اسکے شعبہ ٹاؤن پلاننگ کا حلیہ خصوصی طور پر بگاڑ دیا ہے۔ سیاسی بھرتیوں نے معاملات کی خرابی میں سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ٹاؤن پلاننگ میں اس وقت 19سکیل کا کوئی بھی افسر نہیں۔ گریڈ 17کے جونیئر افسران جو پہلے ہی سیاسی آقاؤں کی مدد سے 18سکیل حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔اب گریڈ 19کی سیٹوں پر کام کرر ہے ہیں۔قابل غور طلب امر یہ ہے کہ ایل ڈی اے میں صرف ایک افسر شکیل انجم منہاس جو ایک سال کی
ایکسٹینشن پر تھے،انہیں بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے سیاسی بنیادوں پرفارغ کردیا گیا ہے۔ شکیل انجم منہاس درویش منش انسان ہیں اور عام لوگوں کی داد رسی کے حوالے جانے جاتے ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے عامر خان ایک وضع دار اور اچھے انسان ہیں تاہم انکااپنے بعض’منہ زور‘ماتحت کرپٹ افسران پر کچھ زیادہ زور نہیں۔ اس لئے وہ محکمہ میں چاہتے ہوئے بھی ایسے تبدیلیاں نہیں لاسکے جس سے عام شہریوں کو ریلیف ملتا۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ بھی زیر عتاب آچکے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی آئی کے دور ِ حکومت میں وائس چیئرمین ایس ایم عمران ہر وقت ایل ڈی اے میں پھیلی ہوئے کرپشن پر کڑھتے رہتے تھے۔
بات یہاں تک رک جاتی تو اچھا تھا لیکن لاہور کی خوبصورتی، زیر زمین پانی کی بہتری، فضائی آلودگی کی کمی اور ملکی معیشت کوپٹری پر ڈالنے کے لئے ایک اوربڑا سرکاری منصوبہ راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ تو شروع ہونے سے قبل ہی کرپشن، غیر قانونی بھرتیوں اور اقربا پروری کی داستانیں سنارہا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک ’گیم چینجر‘ تھا۔تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں موجود کرپٹ مافیا نے اپنی گیم ضرور چینج کر لی ہے۔حال ہی میں یہاں قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری تنخواہوں پر چالیس کے لگ بھگ منظور نظر افسران کو بھرتی کیا گیا اور بعد ازاں جعلی پراسیس کے ذریعے انہیں کنفرم کرنے کے تمام انتظامات مکمل کیے جاچکے ہیں۔پورا پراجیکٹ ہاؤسنگ سوسائٹی میں تبدیل ہوچکا ہے۔اگر دیکھا جائے تو یہی حال تمام دیگر سرکاری اداروں کا ہے۔ سوختہ بال اور آبلہ پا پاکستانی عوام کو کہیں ریلیف میسر نظر نہیں آتا۔ ایسے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت انکی تکالیف کو یکسر فراموش کرچکی ہے۔ یہ تو کوئی قابلیت نہیں کہ آپ مشکل فیصلے کے نام پر عوام پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیں۔آئی ایم ایف کے کہنے پر اگر مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہی عوام کو دبانا تھا تو اسکے لئے حکومت میں آنے کی کیا ضرورت تھی یہ کام تو معمولی قابلیت کا کوئی بھی شخص بھی کرسکتا تھا
سوال یہ نہیں ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابق حکومت ہے، اصل سوال یہ ہے کہ چکی کے دونوں پاٹوں میں پسے عوام کو موجودہ حکومت ریلیف دے پاتی ہے یا نہیں۔ اگر جواب نہیں میں ہوگا تو موجودہ حکومت کے ارباب اختیار جان لیں عوام میں انکی مقبولیت جسے پہلے ہی گرہن لگ چکا ہے، دھڑام سے نیچے آن گرے گی۔ ایسا ہوتا ہے تو پھر اگلے الیکشن میں کامیابی کے بارے میں پی ڈی ایم سوچے بھی نہ۔ رہی بات شیخ رشید سمیت اس وقت پی ٹی آئی کے زعما کی گرفتاریوں کی تو یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ یہ ان کے لئے مکافات عمل ہے۔ پی ٹی آئی نے رانا ثناء الللہ سمیت اپنے مخالفین اور صحافیوں کے ساتھ جو کچھ کیا، اب اسے اس پراسیس سے گزرنا پڑ رہا ہے۔یعنی یوں سمجھ لیں کہ یہ ملک میں سیاسی عمل کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔
پنجاب کی نگران حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے اپنے من پسند افسران کی پر کشش سیٹوں پر تقرری و تعیناتی کا جو جھکڑ چلا رکھا ہے، اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ عوام کو تو تب ریلیف ملے گا جب انہیں سستا آٹا میسر ہوگا۔ جب انہیں ہر ماہ بجلی اور گیس کے ہوش اُڑا دینے والے بل موصول نہیں ہونگے۔
ارباب اختیار کو سمجھنا ہوگا کہ ملک تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب عوام سڑکوں پر نظر آئیں گے۔