بعض واقعات اپنی نوعیت کے لحاظ سے بظاہر بڑے عمومی اور غیر اہم ہوتے ہیں لیکن ان کے اثرا ت بڑی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اور اس کی حکومت کووڈ 19 کے آغاز میں مذاقاً اس کو ووہان وائرس کہا کرتے تھے شروع شروع میںمیڈیا پر جب ٹرمپ سے سوال کیا جاتا تو کئی مواقع پر اس کا جواب یہ تھا کہ صرف وائرس ہی تو ہے اس وقت ان کو احساس نہیں تھا کہ یہ وائرس پوری دنیا کو بہا لے جائے گا اور اس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
ساؤتھ ایشیا جہاں دنیا کی 20 فیصد آبادی رہتی ہے اور جہاں کے دو نیو کلیئر ہمسائے انڈیا اور پاکستان گزشتہ پون صدی سے باہمی منافرت کا شکار ہیں وہاں کے سیاچن گلیشیئر کی چوٹیوں پر برف پگھلنے کے آثار نظر آئے ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ ہمارے کسی مبصر یا تجزیہ نگار نے اس پر بات کی ہو۔ اتنی بڑی پیش رفت کو نظر انداز کرنا ادراک کی قلت ہے یا نیٹ کا فتور ہے یا امن کے خلاف کوئی سازش ہے۔ پاکستان اور انڈیا یا بارڈر کے دونوں طرف امن کی بات کرنے والے کو بزدل سمجھا جاتا ہے اور یہی وہ سوچ ہے جس نے ساؤتھ ایشیا میں خوشحالی کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔
اب آئیے ذرا موجودہ حالات پر غور کرتے ہیں۔ 14جنوری کو وزیراعظم عمران خان نے نیشنل سکیورٹی پالیسی (NSP) برئے 2022-2026کا اعلان کیا جس کا ظاہری مقصد پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم اور خوشحال بنانا تھا اور اس میں ضمنی طور پر یہ بات شامل کی گئی تھی کہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنائے جائیں۔ وزیراعظم کے اعلان سے پہلے ہی اس دستاویز کے مندرجات کے بین السطور میں پڑھنے والوں نے پڑھ لیا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہی NSPکا اصل مقصد ہے۔ ہمارے اس Thesis سے متعلق بیرونی عوامل پر غورکیا جائے تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان مخالف بیانئے میں وقفہ ہو چکا ہے اور سرکاری وزراء بھی پاکستان کا براہ راست نشانہ بنانے سے گریز کر رہے ہیں حتیٰ کہ انڈیا کے آرمی چیف آف سٹاف جنرل بپن روات کے ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کا الزام بھی پاکستان پر نہیں لگایا گیا حالانکہ انڈیا کی حالت یہ ہے کہ وہاں ٹرین حادثے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ گویا ایک غیر اعلانیہ اور خاموش سیز فائر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کچھ عرصہ سے جاری ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا کیونکہ جو بولے گا وہ اپنے ملک میں بزدل یا غدار قرار پائے گا انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ بڑی مشکل سیاست ہے۔
اس پس منظر کے بعد عرض یہ ہے کہ بات یہاں تک نہیں رہی اس سے بہت آگے بڑھ گئی ہے ہوا یہ کہ 12 جنوری کو انڈیا میں آرمی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سال آرمی ڈے کے موقع پر انڈین آرمی چیف جنرل منوج نروانے کی طرف سے ایک ایسا بیان سامنے آیا جو ابھی تک میرے لیے ناقابل یقین ہے مگر اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی اس پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہے کوئی ذکر تک نہیں کر رہا۔
جس طرح پاکستان نے NSP میں معاشی استحکام کی پالیسی میں ضمنی طور پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی بات کی ہے ، اسی طرح انڈین آرمی چیف منوج نروانے نے اپنے سالانکہ آرمی ڈے پر خطاب میں بھارت اور چائنا کے درمیان لداخ کے متنازع صورت حال کے تناظر میں لداخ سے دو طرفہ طور پر فوج کے انخلا کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہی کہا کہ سیاچن کے بارے میں ہمارا مؤقف وہی ہے جو لداخ کے بارے میں ہے کہ وہاں سے فوج انخلا demilitarisation پر بات کی جا سکتی ہے بشرطیکہ پاکستان Actual ground position line (AGPL) کے یقین پر آمادہ ہو جائے یہ بات ذرا وضاحت طلب ہے۔ AGPL وہ پوزیشن ے جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے پوسٹیں بنا کر بیٹھی ہیں جہاں سے وہ ایک دوسرے کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انڈیا کا موقف ہے کہ دونوں ممالک کے پاس جہاں جہاں جس جس کا قبضہ ہے ، اس کی دستاویزی طور پر حد بندی Delineation کر دی جائے اور ایک معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فوجیں یہ علاقہ خالی کر دیں گویا اپریل 1984ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کر دی جائے جب سیاچن پر نہ پاکستان کی فوجی چوکیاں تھیں اور نہ انڈیا کی۔
انڈین آرمی چیف نے فوجی انخلا کے لیے 3Ds فارمولا دیا ہے جس کے تین اجزا یہ ہیں ڈی انگیجمنٹ یعنی سب سے پہلے تصادم سے گریز دوسرا De induction کہ مزید نفری نہ بھیجنے کا اعلان اور تیسرا De esculation کہ موجودہ تناؤ کا خاتمہ کرنا۔ انڈین آرمی چیف کی طرف سے اس طرح کی پیش کش انڈیا کے اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے ہٹنے اور کمپرومائز کرنے کی واضح نشانی ہے ۔ یہ وہ پوائنٹ ہے جہاں پر انڈین کانگریس یا مودی مخالف سیاسی جماعتیں اگلے انتخاب میں مودی پر بزدلی یا شکست خوردہ سوچ کا الزام لگا سکتی ہیں۔
لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ عالمی طور پر کسی نہ کسی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کا عمل شروع کیا جائے جس کے لیے گزشتہ ایک سال سے مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے توسط سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان خاموش سفارتکاری جاری ہے۔ انڈین آرمی چیف کا یہ بیان غیر ارادی قطعاً نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اس بیان پر انڈین قیادت کی طرف سے کوئی مخالف ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے امید کی کرن یہ ہے کہ بریک تھرو ہو سکتا ہے۔
تاریخ طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ 1949ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر معاہدے کی روس سے لائن آف کنٹرول قائم کی گئی کہ جس جس جگہ پر جس کا قبضہ ہے اسے سرحد تصور کیا جائے یہ لائن کشمیر میں تو واضح کر دی گئی مگر اس سے آگے ایک جگہ جیسے NJ 9842کہا جاتا ہے جہاں سے سیاچن کا علاقہ شروع ہوتا ہے وہاں پر اس لائن کو روک دیا گیا اور یہ طے پایا کہ کہ سیاچن گلیشیئر تک یہ تعین کیا جائے کہ اس غیر آباد علاقے کا کتنا حصہ کس کے پاس ہے (یہ تعین آج تک نہیں ہو سکا) ۔ 1949ء سے 1984ء تک Status Que برقرار رہا ۔ 1984ء میں انڈیا نے فوج بھیج کر علاقے پر قبضہ کی کوشش کی جس پر پاکستان نے ان کا راستہ روک دیا اس وقت سے دونوں ممالک کی فوجیں سیاچن میں آمنے سامنے ہیں یہ دنیا کا سب سے اونچا میدان ہے جہاں موسم کی شدت کے ساتھ لڑائی دشمن سے لڑائی سے زیادہ مشکل ہے۔ یہ 2300 مربع کلو میٹر کا علاقہ ہے جس کا 80 فیصد حصہ 16000 فت سے بھی زیادہ بلند ہے جہاں پورا سال برف جمی رہتی ہے یہاں پر فوجی چوکی قائم رکھنے کا خرچہ میدانی علاقوں کی نسبت کئی سو گنا زیادہ ہے اور موسم کی سختی کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن عسکری اور جغرافیائی حقائق سے قطع نظر یہ فیصلہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت نے کرنا ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں امن کی تلاش کا کام کیسے ممکن ہے۔ دنیا کی دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کو تباہ کر دینے والے یورپی ممالک گزشتہ 30 سال سے زیادہ عرصہ سے ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں مگر انڈیا پاکستان گزشتہ 73 سال میں مل جل کر رہنا نہیں سیکھ سکے۔ ان حالات میں سیاچن سے فوجی انخلا کی بات کرنا خاصا معنی خیز اور پر امید ہو سکتا ہے۔
سیاچن گلیشیئر پگھلنے کی امید نو
08:57 AM, 8 Feb, 2022