ماہر نفسیات کے مطابق grief یعنی دکھ ،ملال اور شدید تکلیف کی پانچ سٹیجز ہوتی ہیں جو تمام عمر انسان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔ان میں سب سے پہلی سٹیج denial ہے یعنی ذہنی طور پر کسی شے کی قبولیت سے انکاری ہو جانا اور افسوس یہ کہ ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی فیز میں گزار دیتے ہیں۔ہم کسی بھی چیز کے ختم ہونے کو قبول نہیں کرتے بلکہ ہضم نہیں کرتے یا پھر شاید کرنا نہیں چاہتے۔۔۔ اب ضروری تو نہیں ہے ہر بات،ہر کام ،ہر فیصلہ ہماری خواہش کے مطابق ہو یا اس کا رزلٹ ہماری منشا کے مطابق ہو۔ یاد رکھیں یہ denial انسان کو دوسری سٹیج کی طرف لے جاتا ہے جسے ہم anger کہتے ہیں۔۔۔یعنی بات بے بات غصہ کرنا۔ویلا مچانا ، بلا وجہ غصہ کرنا،اس غصے کی وجہ سے اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا رکھنا اور ایسا ہم کرتے ہیں۔یہ غصہ ہمیں تیسری سٹیج پر لے جاتا ہے جس میں ہم اپنا آپ بھول کر گڑگڑاتے ہیں۔ عموماً انسان کے سامنے ہی۔جس میں ہم اپنی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں اسے bargaining phaseکہتے ہیں۔۔۔یہ فیز انسان کو مذہب سے بھی بیگانہ کر سکتی ہے۔ہمارے ضمیر کو بھی سلا سکتی ہے۔اچھے اور برے کی تمیز بھی ختم کر سکتی ہے اور جب یہ سب بارگینگ سے بھی سب لاحاصل رہے تو ہم چوتھی سٹیج پر پہنچتے ہیں جسے دماغی امراض کی ماں کہنا بہتر ہوگا یعنی depression ۔۔۔جسے ہم ذہنی تناؤ ،ذہنی انتشار کہتے ہیں۔میں یہاں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا چلوں ہم میں سے اکثریت اسی فیز میں رہ جاتی ہے۔۔۔۔بار بار ایک ہی بات کو سوچنا، رونا، پچھتانا، بس یہی سب…
ہم میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آخری سٹیج پر جاتے ہیں جسے acceptance کہتے ہیں۔یعنی کہ اس نے سب قبول کرلیا۔جو حقیقت تھی اسے حقیقت مانا۔یہ بات سمجھ۔ خواہشات زخم دیتی ہیں۔ توقعات نہ پوری نہ ہوں تو مایوسی جنم لیتی ہے اور یہ جان لیتے ہیں کہ یہ رشتے ناپائیدار ہیں جانے والے کو خوشی سے جانے دیا اور اپنے غم کا اشتہار نہیں لگایا۔۔۔اگلے کو اسکی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ایسے لوگ کامیاب لوگ کہلاتے ہیںجو زندگی کے پیچ تاؤ کو قبول کرتے ہیں اور یہ سب تو منحصر ہے سب کی مینٹل ڈویلپمنٹ اور مینٹل ہیلتھ پر۔۔۔اپنی مینٹل ہیلتھ امپروو کریں یہ صرف آپ خود کر سکتے ہیں۔کوشش کریں ایکسیپٹ کریں اور آگے بڑھیں۔تاریخ کہتی کہ گاندھی پاکستان کی خاطر قتل ہوئے۔ 2جنوری 1948ء کو حکومت ہند نے پاکستان کو اس کے حصے کے55 کروڑ روپے اور فوجی سامان دینے سے انکار کر دیا تھا۔اس پر گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں برت رکھ لیا( بھوک ہڑتال کردی)
جس پر بھارتی حکومت 16 جنوری کو پاکستان کو 55 کروڑ روپے دینے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی گاندھی کے اس ’’جرم ‘‘ کی وجہ سے ایک انتہا پسند ہندو نے 30 جنوری کو انہیں قتل کر دیا۔اگلے دن پاکستان میں سوگ کا دن منایا گیا، تمام دفاتر بند رہے اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔قائد اعظم نے کہا ’’ گاندھی ان عظیم ترین افراد میں سے ایک تھے جو ہندو قوم نے پیدا کئے‘‘ برادرم امجد سلیم علوی فرماتے ہیں ’’اسی کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور واقعہ بھی گاندھی جی کے قتل کا باعث بنا۔ سہروردی گاندھی جی کو پارٹیشن کے وقت بنگال لے گئے تھے تا کہ بنگالی مسلمانوں کو ہندو کی نفرت سے بچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ جب گاندھی جی واپس دلی آئے تو دلی مسلمانوں کے لہو میں ڈوبا ہوا تھا۔ گاندھی جی نے دلی میں خون خرابہ بھی بند کرایا۔ گاندھی جی منصوبہ بنا رہے تھے کہ بھارت سے ہندوؤں کا ایک جتھہ لا کر واپس ماڈل ٹاؤن لاہور میں آباد کریں اور یہاں سے مسلمانوں کا ایک لشکر لے جا کر ان کو اپنے آبائی گھروں میں پہنچائیں۔ گاندھی جی کے دورے کا انتظام کرنے کے لیے سہروردی جنوری 1948ء کے اواخر میں لاہور بھی آئے اور دو دن قیام کیا، اس دوران اربابِ اختیار سے ملاقاتیں بھی کیں اور ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔ ان کے واپس جانے کے دو تین دن بعد ہی گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا۔‘‘یہ تھی ایک بڑے لیڈر کی سوچ اور فکر۔۔۔آج ہم عوام ہر سال پانچ فروری کو ’’یومِ یکجہتی کشمیر ‘‘کا دن منا کر اپنے کشمیری مسلمانوں کو تو نفسیاتی طور مضبوط کر رہے ہیں۔ انہیں تمام نفسیاتی الجھنوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر افسوس ہے ہمارے لیڈر،ہمارے حکمران بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو منوانے سے قاصر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمارے حکمران بین الاقوامی ہتھکنڈوں کی پروا کئے بغیر صدق دل اور نیک نیتی سے کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی طرف توجہ دیں۔ بھارت سمیت تمام غیر مسلم دشمن ممالک denial والی سٹیج پر ہیں یعنی وہ ذہنی طور پر کشمیری مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ اسی فیز میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر آزاد کرانا ہوگا کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔