’’کالم نگری‘‘کتابی شکل میں

Aaghar Nadeem Sahar, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

اظہارکے کئی طریقے اورمتعدداسالیب ہیں۔ کالم نگاری بھی ان میں شامل ہے ۔راقمِ سطور کے اندر کالم نگار کی موجودگی کاانکشاف اس وقت ہوا جب ایک قاری اور طالب علم کی حیثیت سے اخبار سے رشتہ قائم ہوا۔لیکن یہ سفر ایک جست یاایک دن میں طے نہیں پاگیا۔اس کی کہانی طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی۔اپنے عہدکے مختلف کالم نگاروں کو پڑھ پڑھ کر کالم لکھنے کی تحریک پیداہوئی۔پہلا کالم ۲۰۰۸ء میں لکھا ‘ایک علاقائی اخبار کے ایڈیٹر کو دینے گیاتو اس نے میرا کالم سامنے پڑی ٹیبل پر گراتے ہوئے کہا:’’جناب پہلے کالم لکھنا تو سیکھ لیں‘‘۔یہی وہ جملہ تھا جس نے مجھے کالم نویس بنایا ۔ دکھ اس بات کا تھا کہ یہ جملہ ایک ایسے شخص نے بولا تھا جو خود میٹرک پاس تھا‘پہلے اخبار کا’’ ہاکر‘‘ ہوتا تھا‘مسلم لیگ ق سے روابط بڑھے تو ان کی مداحی میں اخبار نکالنا شروع کر دیا اور یوں وہ دیکھتے ہی دیکھتے چیف ایڈیٹر ہو گیا۔میں نے کچھ دن بعد وہی کالم بذریعہ ڈاک روزنامہ جناح کو بھیج دیا‘ان دنوں جناح کے چیف ایڈیٹر خوشنود علی خان تھے‘میں ان کے کالم بہت شوق سے پڑھتا تھا، میرا کالم تقریباً ایک ماہ بعد جناح کے ادارتی صفحے پر چھپ گیا‘بس یہاں سے کالم نویسی کا آغاز ہوا۔
ایک طویل عرصہ علاقائی اخبارات میں چھپتا رہا‘ہفتے کے سات دن مسلسل بھی لکھا‘مسلسل چھپا اور یوں علاقے میں میرے کالموں کی بات ہونے لگی۔اچھا لگتا تھا جب کوئی میرے کسی کالم کا حوالہ دیتایا جب کوئی قاری کسی اہم موضوع پر کالم لکھنے کا کہتا۔وقت گزرتا گیا‘غم ِ روزگار اور غم ِ جاناں نے لاہور کی راہ دکھائی اور یوں تقریباً دس سال قبل کشتیاں جلا کراپنے آبائی علاقے منڈی بہاء الدین سے لاہور پہنچ گیا۔لاہور آتے ہی روزنامہ ’’انصاف‘‘کو بطور سب ایڈیٹر جوائن کر لیا‘انصاف میں کبھی کبھار کوئی کالم بھی شائع ہو جاتا، ’’جناح ‘‘کے بعد کسی قومی اخبار میں بطور کالم نویس یہ دوسرا تعارف تھا۔کچھ عرصہ روزنامہ ’’انصاف‘‘ 
میںگزرا‘پھر روزنامہ ’’اذکار‘‘جوائن کر لیا‘دو ماہ روزنامہ ’’اذکار ‘‘میں کام کیا اورآخر کار ’’اذکار‘‘ کو بھی خیر باد کہ دیا۔مسئلہ اس وقت بھی وہی تھا جو آج ہے‘ مجھ جیسا سیلف میڈ آدمی جو آنکھوں میں درجنوں خواب لیے لاہور پہنچا ہو‘جسے گھر سے کسی بھی طرح کی مالی سپورٹ نہ ہو‘اس کے لیے تنخواہ کے بغیر جسم وجان کا رشتہ برقراررکھنا بہت مشکل تھا لہٰذا میں نے پرنٹ میڈیا کو خدا حافظ کہا اور ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کو بہ طور اردو استاد جوائن کر لیا۔
اردو پڑھاتے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک دوست نے روزنامہ ’’جناح‘‘میںملازمت کا بندو بست کر دیا‘ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’جناح ‘‘کی انتظامیہ تبدیل ہو گئی ہے‘اب اس میں معروف صحافی محمود شام بہ طور مدیر آ گئے ہیں لہٰذا مسائل نہیں ہوں گے۔یوں میں نے ایک دفعہ پھر پرنٹ میڈیا جوائن کر لیا۔اس دفعہ’’ جناح‘‘ میں ملازمت تو سب ایڈیٹر کی تھی مگر یہاں میرے کالم بھی تواتر سے شائع ہونے لگے تھے۔ہفتے میں کبھی ایک اور کبھی دو کالم شائع ہوجاتے ‘کئی صحافی دوستوں سے اسی زمانے میں ملاقاتیں ہوئیں‘پریس کلب بھی جانا شروع کر دیا اور صحافتی حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔چند ماہ روزنامہ ’’جناح‘‘ میں نوکری کی مگر یہ تجربہ بھی پہلے سے مختلف نہ تھا لہٰذا اسے بھی خیرباد کہہ دیا مگر کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اخبار‘ جس سے محبت کا آغاز والد ِگرامی (ریاض احمد صدیقی مرحوم)کے توسط سے ہوا‘گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آیا تو میرے کہنے پر روزنامہ ’’اسلام‘‘ اور ہفت روزہ ’’ضربِ مومن‘‘ بھی لگ گیا‘ان اخباروں میں چھپنے والوں کالموں کا مطالعہ بہت شوق سے کرتا تھااور دل ہی دل میں خواہش بھی پیدا ہو گئی کہ ایسا لکھوں۔والد کو اس کا علم ہوا تو میرے لیے کچھ  ہفت روزہ رسائل بھی لگوا دیے‘یہی وجہ ہے کہ میں کالم نویس بننے کا کریڈٹ اپنے والد ِ گرامی کو دیتا ہوں۔ اخبار کا پہلا لمس‘ نیوز بلیٹن سننے کاتجربہ ابو جی کے توسط سے نصیب ہوا‘آج وہ اس دنیا میں نہیں‘ان کے انتقال کو دس سال بیت گئے‘کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش وہ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ جس بچے کوانھوں نے خبریں پڑھنا اورسننا سکھایا تھا‘آج وہ ایک قومی اخبار کا کالم نویس بن چکا ہے۔
قارئین!اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں ان دنوں ’’کالم نگری‘‘کو کتابی شکل دینے میں مصروف ہوں،گزشتہ دس سال میں پانچ سو سے زائد کالم اور مضامین لکھے‘وہ ادبی بھی تھے اور سیاسی و سماجی بھی‘ہر موضوع پر لکھا اور مسلسل لکھا مگر اب جب کتاب کے لیے کالموں کے انتخاب کا مرحلہ آیا ‘تو میرے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہو گیا کہ کس کالم کو کتاب میں جگہ دی جائے اور کسے نکال دیا جائے۔چند قریبی دوستوں کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ فی الحال سیاسی موضوعات پر لکھے گئے کالموں کے بجائے صرف سماجی‘ تاریخی اورادبی کالموں کو ’’کالم نگری‘‘میں شامل کیا جائے لہٰذا تاریخ‘ ادب‘ سماج اور صحافت جیسے موضوعات پر کالم ’’کالم نگری‘‘ میں شامل کر دیے گئے ہیں اوراس کتاب کو قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل شائع کر رہی ہے ۔ میرا ادبی ایمان ہے کہ ہمیں کتاب خرید کر پڑھنی چاہیے‘کسی مصنف یا ادیب کی حوصلہ افزائی کا بہترین طریقہ یہی ہے۔320صفحات کی اس کتاب کی تیاری میں‘ سرورق سے لے کر پرنٹنگ اور اشاعت تک انتہائی محنت کی گئی ہے‘ ادارہ بہترین کاغذ پر اسے چھاپ رہا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں بہت سے دوستوں اور سینئرز کی رہنمائی اور مشاورت میسر رہی ہے جن کا ممنون ہوں۔ان سینئرز کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے کتاب پر فلیپس اور مضامین لکھے‘کمپوزنگ سے لے کر فائنل پروف خوانی تک‘سب پیاروں نے بہت محنت کی‘امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب آپ سب کو پسند آئے گی کیوں کہ آپ سب نے برقی رابطوں کے ذریعے ہمیشہ میرا مان بڑھایا اور ہر بار مجھے نیا لکھنے پر آمادہ کیا۔اس’’کالم نگری‘‘ کی اشاعت کے بعد بھی آپ سب کے التفات اور ردعمل کا انتظار رہے گا کیوں کہ کسی بھی قلم کار کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے سنجیدہ قارئین ہوتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں