اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے لگتا ہے کہ آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے کیونکہ صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تو یہ خود بخود غیرمؤثر ہو جائے گا۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے۔ ہم نے ملک میں اچھے سیاستدان بھی دیکھے ہیں اور سب سیاستدانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔
عدالت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق گزشتہ دنوں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں۔ سندھ حکومت کے ذریعے پیپلزپارٹی یہاں فریق ہے اور حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نہ حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کر سکتی ہے نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے۔ اٹارنی جنرل نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ حکومت نے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا احترام نہیں کیا، عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ سینیٹ الیکشن شیڈول 11 فروری کے بعد آرڈیننس جاری ہونے سے مسائل ہوسکتے تھے، آرڈیننس سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں رُو بہ عمل ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ووٹنگ سیکرٹ ہوگی لیکن بیلٹ کی بوقت ضرورت شناخت ہوسکے گی، اٹارنی جنرل نے کہا فرض کریں سپریم کورٹ رائے نہیں دیتی تو 11مارچ کو سینیٹ الیکشن سیکرٹ ووٹنگ سے ہوگا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟ ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاستدان بھی دیکھے ہیں، سب سیاستدانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے، 1985 کے عام انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے، 1985 کے انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر ہوئے، محمد خان جونیجونےحکومت بنائی اورپیسے کا بے دریغ استعمال ہوا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پیسے لے کر ووٹ دینے والوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کردے، کیس کی مزید سماعت 10 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔