کتنا تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے کسی خواب کی تعبیر کیلئے انتھک جدوجہد کرنے کے بعد اُس کی بے نتیجہ خوفناک تعبیردیکھ کر اپنے خواب سے دستبردار ہونا۔جب آپ کسی بیوقوف کے ساتھ سرکھپانا شروع کردیں تو سمجھ لیں کہ وہاں دو بیوقوف ہو جاتے ہیں۔ ریاستیں وجدان اور تصوف کے ناقابل تسخیرفلسفوں پر نہیں حقیقی عقل کے اعلیٰ ترین فیصلوں سے چلتی ہیں۔اپنے دھرتی ٗ اپنے لوگ اور اِن کے مسائل کا مستقل حل سوچنا اور اُس کیلئے حقیقی جدوجہد کرنا یقینا ایک بڑے خواب کی تعبیرکے خاکے میں اپنے خون سے رنگ بھرنے کی سعی ہوتی ہے۔جس کیلئے آپ کو اپنی ہر جسمانی اورروحانی لذت سے بہت حد تک دستبردار ہو کر ایک ازلی مادی حقیقت کیلئے سماج کو پیچھے دھکیلنے والی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ جس میں آپ کے اپنوں کا ساتھ ٗ جنازے اور باراتیں سب چھوٹ جاتے ہیں۔آپ کے اپنے پیدا کیے ہوئے بچوں کا مستقبل ریاست میں محرومیوں کا شکار کروڑوں بچوں کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔یہ ایک فرد کی زندگی کیلئے ذاتی حیثیت میں کسی جان لیوا المیے سے کم نہیں ہوتا لیکن دوسروں کے گھروں میں روشنی کرنے کیلئے آپ کو اپنے گھر کے چراغ بسا اوقات مدھم یا پھر گُل کرنا پڑتے ہی ہیں۔ بڑا انسان ٗ بڑی بڑی ناقابلِ عمل باتوں سے نہیں ٗ قابل عمل سوچ اوراُس کی عملی تصویرسے بنتے ہیں۔ ایسا عمل جس کے ثمرات سے صرف اُس کے اپنے خطے کے انسان ہی نہیں دنیا بھر کے انسان مستفید ہوں۔ ہمارے ہاں اکثر یہ سننے میں آیا ہے کہ صحافی کے کوئی نظریات نہیں ہوتے ٗ ایسا سوچنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں کیوں کہ نظریات صرف پاگل کے نہیں ہوتے یہی وجہ ہے کہ قانونِ معاہدہ انہیں کوئی بھی معاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کی زندہ مثال ہے کہ قیدیوں کو ووٹ کا حق ہوتا ہے لیکن پاگل خانے میں کبھی ووٹنگ نہیں ہوتی۔پاکستان مذہبی شعبدہ بازوں اور سیاسی مداریو ں کے درمیان پھنسی ہوئی ریاست ہے۔جہاں عوامی فلاح کا ہر منصوبہ ایک دھوکہ یا اپنے اقتدار کی طوالت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہوش سنبھالا تو پاکستان نازک مرحلے سے گزر رہا تھا یہ نازک مرحلہ شیطان کی وہ آنت ہے کو آج تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مذہبی ٗ امریکہ مخالف ٗ اسٹیبلشمنٹ مخالف اور روٹی کپڑا مکان تک کے بیانیے اس ریاست میں وقتاً فوقتاً بیچے گئے لیکن عمران نیازی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا کردار ہے جس نے یہ چاروں بیانیے نہ صرف کمال خوبی سے استعمال کیے بلکہ ان سے انحراف اِس سے بھی زیادہ مہارت سے کیا۔ مجھے بھو ک سے بلکتا ہوا بچہ دیکھ کر دکھ ہوتا تھا۔میں بغیرعلاج کے مرتے ہوئے انسان کو دیکھ کر غمزدہ ہو جاتا ہو تھا۔ بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ نوجوان جب مینار پاکستان سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرتے تھے تومیں کئی روز تک اُس خوفناک منظر سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا تھا۔بغیرجہیز کے غریب ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بیٹیوں کے سروں میں اترتی چاندی دیکھتا تو میری روح تک کانپ جاتی تھی۔
اندرون لاہور کی تنگ تاریک گلیوں میں دم توڑتی حیات مجھے توڑ پھوڑ دیا کرتی تھی۔ کرپشن ٗ بدیانتی ٗ اقربا پروری ٗانصاف کی عدم دستیابی ٗ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ٗ طبقاتی معیار تعلیم و تعظیم میری روح کی رو ح پرموت طاری کر دیتی تھی یہی وہ حالات تھے جن میں ٗ میں نے سیاست کرنے کا فیصلہ کیا اوردیانتداری سے 42 سال تک اس خدمت کو سرانجام دیا۔میں اکثراللہ کی ذات بارے میں سوال اٹھانا شروع ہو جاتا توایک قریبی دوست نے قرآن کا مطالعہ خودکرنے کی تجویز دی۔ خوارج سے لے کرگوہر شاہی اور جو کچھ اس کے درمیان میں ہو گزرا تھا سب نظر سے گزرا لیکن اللہ نے کہیں قدر زائد یعنی ضرورت سے زیادہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب آپ کے پاس ضرورت سے زیادہ اور لوگوں کے پاس ضرورت سے کم ہے تو پھر آپ بلاشبہ چور ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کسی مسلم ریاست کی جانب سے ذاتی ملکیت کی حد مقرر نہ ہونے کے سبب سب کچھ گڈمڈ ہوا پڑاہے۔ منشیات فروش ٗ جواریے ٗرشوت خورٗ قبضہ مافیہ اور ناجائز طریقے سے مال اکھٹا کرنے والے نہ صرف مکان کے باہر ھذا من فضل ربی لکھوا لیتے ہیں بلکہ اُسے اللہ کاکرم کہتے ہوئے فخرمحسوس کرتے ہیں۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں بولنا سکھایا ٗ دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں علم سکھایا قلم سے۔ تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بولنا اورلکھنا انسانوں کا حق ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں پر فرض ہے۔کیونکہ انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین کرنے والوں کو یہ خیال 1948 ء میں آیا اورانہوں نے مسلمانوں کے فرائض ٗ حقوق بنا کر اُن پر ”احسانِ عظیم“ کردیا۔
آج عمران خان کو گڈ بائے کہتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ وہ باتیں منظرِعام پرلے آؤں جن سے عام پاکستانی آج بھی دھوکا کھا رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے عمران خان کو شاید کبھی قریب سے بھی نہیں دیکھا وہ اُس کے کردار اور قول و فعل کی شہادتیں دے رہے ہیں لیکن یہ صرف اُن بچوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ خود عمران خان نے ایک تیار شدہ تحریک کو پاکستان کی فوجی جنتا کے قدموں پر قربان کرکے اگلی کئی دہائیوں تک کسی نئی تحریک کا رستہ بند کردیاہے۔عمران کل تک جنہیں جواریا ٗ چپڑاسی یا ڈاکو سمجھتا ٗ کہتا اور لکھتا تھا آج اُس کے ہیروز ہیں۔ ہم نے اِس عمران خان کا ساتھ دینے کا کوئی عہد نہیں کیا تھا کیونکہ یہ کبھی ہمارا ایجنڈہ نہیں رہا لیکن عمران خان کے اقتدارکے دنوں میں اس لئے خاموشی اختیارکی کہ کسی کے ذہن میں یہ کمینگی نہ آئے کہ شاید ہم کسی پنج یادس ہزاری عہدے کیلئے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ آج مرکز میں عمران کی حکومت کا سورج غروب ہو چکا لیکن پنجاب ٗخیبرپختون خوااورکشمیر میں اسی کی ڈگمگاتی حکومتیں قائم ہیں۔ مسٹرعمران! ہمیں عہدوں کا لالچ ہوتا تو ضیا سے لے کر مشرف تک سب کے دروازے ہمارے لئے کھلے تھے لیکن پی ٹی آئی کے ورکرز ایک بڑی سیاسی اور سماجی تبدیلی کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ میں عمران خان کوجانتا ہی نہیں پہچانتا بھی ہوں کیونکہ میں نے اُس کو تقریباً ہرانسانی روپ میں دیکھ لیا ہے اورمیں اُس کے اُن ابتدائی ساتھیوں میں سے ہوں جنہوں نے تحریک انصاف بنانے کیلئے دن رات ایک کیا۔ میں اپنا کوئی شاہ نامہ نہیں سنانا چاہتا لیکن یہ بات درست ہے کہ میں پی ٹی آئی کا واحد ورکر تھا جو اخبارات میں لکھتا بھی تھا ٗ انٹرویوزبھی دیتا تھااورسٹیج پر بولتا بھی تھا ٗ تنظیمی عہدے پرکام بھی کرتا تھا اور پولیٹکل ٹریننگ کا فریضہ بھی ادا کرتا تھا۔ میری ان تمام خوبیوں کا اعتراف چیئرمین تحریک انصاف نے بارہا کیا اورالیکشن 2018ء سے پہلے ورکرکنونشن میں انہوں نے لائیو تقریرکرتے ہوئے اِن خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”میں تمہیں نیا پاکستان دکھا کر اوپربھیجوں گا“وہ تو خدا کا شکر ہے کہ اُس سے نیا پاکستان نہیں بنا ورنہ شاید وہ اپنا یہی ایک وعدہ پورا کرکے سرخرو ہوجاتااوربعد ازاں کسی تقریر میں بتا رہا ہوتا کہ میں نے اسے مراد سعید کو کہہ کر پاکستان سے نکالا تھا۔ میں سارے پاکستان کی بات تو نہیں کرتا لیکن پنجاب میں اٹک سے لیکرصادق آباد تک پی ٹی آئی کے ورکرز سے میری شناسائی ٗ دوستی اور ایک ٹرینر کا رشتہ ضرور ہے۔اس انتھک اورطویل جدو جہد کے باوجود وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اور پھر ایک سونامی واقعی ہم نے چشم حیرت سے 30 اکتوبر 2011ء کو دیکھی لیکن شومئی قسمت کہ یہ سونامی صرف اورصرف چیئرمین تحریک انصاف کا رویہ اورتحریک انصاف کی حقیقی آئیڈیالوجی بہا کرلے گئی۔ (جاری ہے)