رحمت العالمینؐ کے پیروکاروں نے سیالکوٹ میں جس سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے وہ خاتم النبیینؐ سے محبت اور عقیدت نہیں بلکہ ذاتی نفرت ورنجش ہے مگر عقیدت و محبت کا پیراہن پہناکر انسانیت کو رونداگیا اسلام تو امن وآشتی کا دین ہے جوکسی بھی جاندار کو تکلیف دینے سے منع کرتا ہے یہاں لوگ مار پیٹ کرتے ہیں اور انسانی جان لیکر نعش کو سرعام آگ لگا دیتے ہیںاور یہ سب کچھ رحمت العالمین سے عقیدت کے نام پر کیا گیالیکن یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہونے وا لا ایسا قتل ہے جس کے ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا نہ دی گئی تو کوئی بھی جتھے بنا کر کہیں بھی عدالت لگا کر بے گناہوں کا خون بہاکر مذہبی لبادہ اوڑھ لے گا اِس لیے ریاست کو ریاستی اِداروں کو اور تمام مکاتب فکر کو مل کر ظلم کی آگ کو روکنا ہو گا کیسی ستم ظریفی ہے ذاتی رنجش کو اسلام سے نتھی کردیاجاتا ہے اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک میں ہی اسلام کو کیوں خطرہ ہے؟ دنیا بھر میں درجنوں اسلامی ممالک ہیں مگر ایسے واقعات نہ ہونے کے برابرہیںسب سے زیادہ کیس پاکستان میں ہی کیوںسامنے آتے ہیں؟ اِس میںکوئی ابہام نہیں کہ الزامات کے پسِ پردہ پیارے نبیؑ سے الفت کا جذبہ کم اور مخالف کو سزا دینے کی آرزو ہوتی ہے۔
اسلام میں سود خوری حرام ہے کسی کامال کھانے ،ملاوٹ کرنے ،جوا کھیلنے ،جھوٹ بولنے ،شراب پینے ،زنا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے لیکن ہمارا سارانظام ہی سود پر قائم ہے کسی کا مال کھانے سے لیکر جائیداد پر قبضے کر لیے جاتے ہیں جوابھی کثرت سے کھیلا جاتاہے امیروں کی محافل کا شراب لازمی حصہ ہے جبکہ زنا اور جھوٹ بھی عام ہے ستم یہ کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی جنسی حملوں سے محفوظ نہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہمارے پیارے نبیؐ کا یہ درس ہے یا اِسلام مذکورہ افعال کی اجازت دیتاہے؟ہر گز نہیں ۔صفائی کو نصف ایمان قراردیا گیا ہے لیکن کیا وطن کی کسی بستی کو صفائی کے حوالے سے مثالی کہہ سکتے ہیں؟ملک بھر میںدن رات اسلامی تعلیمات کی نفی ہوتی ہے مگر کہیں اعلان ہوجائے کہ توہینِ رسالت کے مجرم کو سزا دینی ہے تو سود خور ،ملاوٹ کرنے اور جوا کھیلنے والے،شراب پینے اور زنا کرنے والے حقیقت جاننے کی بجائے تشدد کو ثواب سمجھ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے کیا تشدد کرنا ہی حبِ رسول ہے؟ حبِ رسول تو یہ ہے کہ اخلاقی حوالے سے اِتنا اچھا کردار ہوکہ غیر مسلم خود اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لیں مگر ہم تو ایسی ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ غیر مسلم تو ایک طرف مسلمان بھی خوفزدہ ہیں یہ رویہ کسی حوالے سے بھی قابلِ قدر ،قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید نہیں ۔
کوئی مسلمان توہینِ رسالت برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پیارے آقاؐ کی حرمت پر خوشی خوشی جان قربان کرنے کوسعادت سمجھتا ہے لیکن ہم پیارے آقاؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے منافی چلتے ہیں مگر شرمسار نہیں ہوتے توہین کاجھوٹا الزام لگا کر کسی کی جان لینے پر فخرکرتے ہیں تعجب ہے پیارے مدنی آقاؐ نے فرمایا کہ تم اُس وقت تک ہر گز مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک وہی چیز اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔اورہاں غیر مسلموں کاتحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور ہم ساری دنیا کا محاسبہ اپنی پسند کے مطابق کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن خودکیا کرتے ہیں کوئی پوچھنے کی جسارت کرلے تو عدالت اورگواہ خودہی بن کرانسانی جان لینے کو کارنامہ کہتے ہیں ۔
سانحہ سیالکوٹ کا سبق یہ ہے کہ اب مصلحت نہیں بڑے فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے ایسے فیصلے جن سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اگر جھوٹے الزامات لگانے کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی اور جتھے اسی طرح اپنی عدالتیں لگا کر فیصلے کرنے کی روش پر چلتے رہے توتشدد کے رجحانات کو تقویت ملے گی جس سے معاشرت اورریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اگر ریاست کی رَٹ اور قانون کی عملداری ہوتی تو سانحہ سیالکوٹ ہر گز رونمانہ ہوتا ریاست کی نرمی سے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں کیونکہ انہیں پکڑ یا سرزنش کا خوف وخطرہ نہیں ہوتا سوموار کو سیاسی و عسکری قیادت کے مشترکہ اجلاس میں سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کو نہ قابل برداشت قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کرنے اور تمام مجرموں کو سخت سزائیں دلوانے کا عزم کیا گیا ہے امید ہے یہ عزم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ عملی طور پر بھی کچھ ہوتا نظر آئے گاکیونکہ ہر مکتبہ فکر میں تشویش جڑیں پکڑچکی ہے لوگو ں کے دلوں سے خوف نکالنا اور شدت پسند ی اور انتہا پسندی کے تاثر کو دور کرنا ہے تو مذہبی بلیک میلنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔
پریانتھا کمارا بطور منیجر ایک ذمہ دار اور فرض شناس شخص تھا اگر کام چور اور نالائق ہوتا تو نو برس تک منیجر کی ملازمت برقرار نہ رکھ پاتاالبتہ فیکٹری میں کام کرنے والوں سے اُجرت کے عوض بہتر کارگزاری کے لیے سختی ضرور کرتا رہا جس سے کام چور اور لاپروا مزدور نا خوش تھے منیجر کیونکہ اُردو یا عربی سے لاعلم تھا اسی لیے غیر ملکی وفود کے آنے سے قبل فیکٹری میںصفائی وغیرہ کرائی توناراض مزدوروں کوشیطانی چال چلنے کا موقع مل گیا حالانکہ مذہبی پوسٹر اُتارنے پر منیجر نے نہ صرف سپروائزر کی سرزنش کی بلکہ خود بھی معافی مانگی لیکن فیکٹری ملازمین نے معافی قبول کرنے کے بجائے توہینِ رسالت کا الزام لگا کر مارپیٹ شروع کر دی الزام لگنے کی دیر تھی کہ منیجر کو زدوکوب کے ساتھ فیکٹری کو بھی نقصان پہنچایا جانے لگا مضروب نے چھت پر چڑھ کر جان بچانے کی کوشش کی تو حملہ آوروں نے چھت سے گرادیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنا کر جان لے لی اور پھر آخر میں نعش کو بھی آگ لگا کر جلا دیا یہ جاہل یہاں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ پل پل کو سوشل میڈیا کی بھی زینت بناتے گئے اب ساری دنیا مذمت کر رہی ہے اور پورا ملک شرمسار اور سوگوار ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ بھی چند دنوں کے بعد عوام کی یاد سے محو ہو جائے گا؟ ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں لیکن ہمارے ذہن سے محو ہو بھی جائے تو دنیا جلد نہیں بھولے گی بلکہ برسوں تک اِس کے اثرات رہیں گے اگرسیالکوٹ میں مارے جانے والے دونوں بچوں کے ورثا انصاف سے محروم نہ رہتے، کراچی کے بینک گارڈ کے ہاتھوں مارے جانے والے منیجر کے لواحقین کو انصاف مل جاتا یاتھانہ سمبڑیال کے ایس ایچ او سلطان گاڑا کی ہجوم کے ہاتھوں اینٹوں سے ہونے والی موت پر ہی ایکشن لے لیا جاتا تو آج صورتحال کچھ مختلف ہوتی اور وزیرِ اعظم عمران خان کوسری لنکن صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے ندامت کی نوبت نہ آتی ۔
سانحہ سیاکوٹ سے دنیا میں بدنامی کے ساتھ سری لنکا سے خوشگوار تعلقات کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے وہی ملک جس نے بھارت کی طرف سے فضائی حدود کی بندش پر پاکستان کے لیے اپنے فضائی راستے کُھلے رکھے اور طیاروں کو ایندھن لینے کی سہولت دی پاکستان نے بھی جواب میں تامل علیحدگی پسندوں پر قابو پانے میں کولمبو حکومت کی مدد کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے باوجود سری لنکا نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا اب اُسی ملک کا صدر کہنے لگاہے کہ وحشیانہ قتل پر صدمے میں ہوں اور واقعے پر گہری تشویش ہے مزید یہ کہ باقی سری لنکن کارکنوں کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں چند شرپسندوں نے ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے مفتی تقی عثمانی نے قتل کو وحشیانہ اور حرام کہہ دیاہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ شدت پسندی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے دیگر علمائے دین بھی فعال ہوں تاکہ مزیدایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔