دنیا میں اِن دنوں حکومت کا مطلب عوام کی خدمت ہے لیکن غور کریں تو تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ ابتداء میں حکمرانی کا تصور ناانصافی اور ظلم پر مبنی تھا۔ سر جیمز جارج فریزر 1890ء میں اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’The Golden Bough‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حاکم وہ بنتا تھاجو سب سے زیادہ طاقتور ہوتا۔ اُس کے لیے ضروری تھا کہ وہ بیمار نہ ہواور نہ ہی اُسے اونگھ آئے کیونکہ بیمار ہونے یا سو جانے کی صورت میں حاکم کا مدمقابل اُسے قتل کرکے اُس کے خزانے، اُس کی عورتوں، اُس کے مویشیوں اور اُس کی رعایا پر قبضہ کرلیتا‘‘۔ تاریخ کے صفحے مزید پلٹیں تو حکمرانی کا یہی تصور بادشاہت میں بدل گیا۔ ایک فرد یا ایک خاندان اپنے ملک کی عوام پر قابض رہتا۔ عوام میں سے کسی کو یہ جرأت نہ تھی کہ وہ خواب میں بھی بادشاہ تک رسائی کرسکیں۔ خواب میں بھی کی گئی کسی بھی بیباکی کی سزا انہیں صبح ہوتے ہی سرقلم کرکے دے دی جاتی۔ تاریخ اور آگے بڑھی تو حکمرانی کے اس ناانصافی اور ظلم والے تصور کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں اور جمہوریت کا خوبصورت نظریہ وجود میں آیا۔ جمہوریت میں عوام کو حکمرانوں تک براہِ راست رسائی دی گئی۔ اِس وقت دنیا بھر میں جمہوریت کے پراپیگنڈے کا طوطی بولتا ہے۔ بیشتر ملک جمہوریت کی چاندنی میں نہا چکے ہیں۔ جہاں اب بھی بادشاہت ہے وہاں بھی جمہوریت کے خلاف کم از کم خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ البتہ کچھ ایسے ملک ہیں جو جمہوریت کے میٹھے پانی سے نہانے کا صرف دعویٰ کرتے ہیں۔ وہاں حکمرانوں کے منتخب ہونے کا پروٹوکول جمہوری بتایا جاتا ہے لیکن عوام پر قبضے کے لیے بادشاہت والا مزاج ہی موجود ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے سرکاری اداروں میں خریدو فروخت کے لیے ٹینڈر دینا قانونی شرط ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق بعض اوقات کمپنیاں باہمی گٹھ جوڑ سے ٹینڈر
جمع کرا دیتی ہیں تاکہ اپنی مرضی کے ریٹ لیں اور کم سٹینڈرڈ والی اشیاء سپلائی کریں۔ یعنی فائلوں کا پیٹ قانونی حوالے سے بھر دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں ٹینڈر اور خریدو فروخت کا انتظام کرنے والے عہدیدار بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح مفادِ عامہ کا کام مفادِ خاص میں بدل جاتا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی جمہوریت مفادِ عامہ سے زیادہ مفادِ خاص میں رہتی ہے؟ کیا جمہوریت کی روح کے مطابق یہاں کے عوام کی رسائی حکمرانوں تک ہے؟ ان سوالات کے جوابات عملی مثالوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں جب اُن کے متعلقہ مذاہب کے دن یا تہوار آتے ہیں تو عوام کو خصوصی طور پر بے پناہ سہولتیں دے دی جاتی ہیں جن میں سب سے اہم لوگوں کی ضروری خریداری کے لیے مقررہ قیمتوں میں بہت زیادہ کمی کا آرڈر ہوتا ہے۔ اس حکم نامے پر تاجر رضاکارانہ طور پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور حکومتِ وقت بھی کڑی نگرانی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ہربرس کی طرح اِس برس بھی ماہِ رمضان کی آمد سے پہلے ہی کھانے پینے کی عام اشیاء کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ اب اس ایشو پر پاکستان میں جمہوریت کے تصور کو پرکھ لیتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ یہاں کے زیادہ تر تاجر خود بھی مسلمان ہیں۔ وہ مہنگائی کا الزام اپنے اوپر لینے کے بجائے اشیاء سپلائی کرنے والے کے سر ڈال دیتے ہیں۔ اگر سپلائر سے پوچھا جائے تو وہ مہنگائی کی ذمہ داری اپنے سے پہلے ہول سیل تاجر اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسئلے پر ڈال دیتا ہے۔ گویا ایک چکر کے گرد گھومنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک میں مہنگائی کی اصل وجہ دریافت نہیں ہوگی اور تحقیق کرنے والا چکراکر گر پڑے گا۔ اگر اس مسئلے پر عوام کی رسائی حکمرانوں تک ہوتی تو حکمرانوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملتی۔ اپنی جمہوریت کا ایک اور سٹائل دیکھتے ہیں۔ اصل جمہوری ملکوں میں انتخابات کے بعد اپوزیشن اگلے انتخابات تک انتظار کرتی ہے اور مقررہ وقت پر انتخابی مہم چلاتی ہے۔ یہاں گزشتہ ساڑھے تین برس سے اپوزیشن حکومت مخالف مہم چلا رہی ہے جوکہ دراصل ان کی اپنی انتخابی مہم ہے اور حکومت اپنی زورآوری کے ذریعے اپوزیشن کو مسلسل بلڈوز کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ عوام کے لیے سڑکیں بند ہورہی ہیں، دھرنے جاری ہیں، ٹاک شوز اور مقدمے بازیوں کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو چت کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی عوام کس حد تک ذہنی ٹارچر میں ہیں یہ کون سی جمہوریت میں ڈسکس ہوگا؟ ہمارے ہاں عام آدمی کے کچھ اور مسائل ہیں۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں ایک بیروزگار صحافی نے اپنے شیرخوار بچے کو دودھ تک پلانے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلی جبکہ اس واقعے کے تقریباً 48گھنٹے کے بعد کراچی میں ہی ایک اور باپ نے اپنی بیروزگاری اور خاندان کے اخراجات پورے نہ کرسکنے کے باعث کئی منزلہ پلازے سے چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ یہ بھی ہمارے جمہوری عہد میں ہی ہوا ہے۔ نہ جانے رمضان میں مہنگائی کا شور مچانے والے عوام، ہڑتالوں اور دھرنوں سے تنگ آئے لوگ، کم سن بچوں کے ساتھ خودکشی کرنے والے ماں باپ کو یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ ساڑھے تین سال سے انصاف کی جمہوری حکومت قائم ہے جس میں عوام کی خوشحالی کی بات کی جارہی ہے۔ اپنی جان پر کھیلنے والے ان جلدباز لوگوں کو یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں اور سعودی عرب کی امداد سے پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے؟ انہیں کہا گیا تھا کہ گھبرانا نہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ گھبرا گئے۔ اِن لاعلم لوگوں کو یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا ایک اور ہدف پورا کیے جانے کی بھرپور کوششیں شروع کردی گئی ہیں؟ کیا یہ سب لوگ جمہوریت کے باوجود حکمرانوں تک رسائی رکھتے تھے؟ یا کیا عام آدمی کی رسائی صرف خودکشی تک ہی ہے؟