وا شنگٹن: فلوریڈا خطاب کے دوران براک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے پر خاص توجہ مرکوز رکھی۔براک اوباما نے مزید کہا کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں انتہاپسند کم ہوئی، لیکن وہاں اب بھی صورتحال کشیدہ ہے، گزشتہ تین دہائیوں سے جنگ افغان شہریوں کی زندگی کا حصہ ہے، امریکا وہاں تشدد کی لہر کو ختم نہیں کرسکتا۔ صدر براک اوبامہ نے افغان جنگ میں اہداف کی ناکامی کا اعتراف کیا
امریکی صدر نے دہشت گردی کے خلاف امریکی کامیابیوں کو غیر اہم سمجھنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے جنوبی ایشیاءمیں موجود دہشت گرد گروپوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور حکمت عملی بنائی۔براک اوباما نے دعویٰ کیا کہ ان کی پالیسیوں کے باعث افغانستان میں حالات بہتر بنانے میں مدد ملی۔
اب ویاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لوگوں کو علاج، بجلی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات میسر ہیں، تاہم اوباما نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کامیابیوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغانستان میں القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ بہتر مستقبل کے خواہاں افغان شہری ہماری مدد کر رہے ہیں۔