دور حاضر میں اگر ہم پاکستان میں رہنے والے لوگوں اور سیاستدانوں کا جائزہ لیں کچھ مختلف نظر نہیں آتا واقعہ کربلا سے ہمارے سیاست دان یزید کی ایک زندہ مثال نظر آتے ہیں۔ شہادت امام حسینؓ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تاریخ میں ایک نشان منزل ہے۔ اس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ جب اسلام میں سیاست اور عبادت کو الگ کرنے کی ساز ش تیار کی جائے اور اس کو بھی سیکولرازم کی طرح روایات کی حد تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت اس نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دو، اس میں یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ جب آپ کا ووٹ طاقت کے ذریعے یا لالچ کے ذریعے لینے کی کوشش کی جائے تو ووٹ کو ایک امانت سمجھ کر دینے سے انکار کر دو۔ اس میں یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ کسی حکمران کا نظام حکومت کے لیے اس کا کردار کیسا ہے، اس میں یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ کسی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا کر خروج نہ کرو بلکہ پُرامن طریقے سے ڈائیلاگ کا راستہ تلاش کرو جیسا کہ حضرت امام حسینؓ نے میدان کربلا میں ظالموں سے کہا تھا کہ مجھے یزید سے براہ راست بات کرنے کا موقع دیا جائے جو انہیں نہیں دیا گیا۔ محرم الحرام کے ان دنوں میں آج اس فلسفہ کو جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا امام حسینؓ نے یہ ساری جدو جہد اور جان کی قربانی دنیاوی اقتدار اور سلطنت پر اپنے ذاتی حق جتانے کے لیے دی؟ مقام حیرت ہے کہ جنہیں جنت کے نوجوانوں کی سرداری ملی ہو انہیں اس دنیا کے تخت و تاج کی کیا چاہت؟ وہ اقتدار جس کی طلب و حرص حضرت ابوبکر صدیقؓ سے لے کر حضرت امام حسنؓ تک نہ تو کسی مسلمان خلیفہ نے کی اور نہ ہی اس کے لیے جنگ و جدل کا بازار گرم کیا، حضرت امام حسینؓ کے بارے میں سوچنا بھی گناہ کبیرہ ہے کہ انہوں نے ذاتی استحقاق کے دعویٰ کے لیے تلوار اٹھائی ہو گی۔ آپ حضرت حسن ؓ کے بھائی تھے جنہوں نے امن کی خاطر حضرت امیر معاویہؓ سے معاہدہ کر لیا تھا اور مسلمانوں کے گروہوں کو جنگ و جدل سے بچا لیا تھا آپ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے وقت ان کے محل کے پہرہ دار تھے جنہوں نے اختیار ہوتے ہوئے اختیار استعمال نہ کیا اور اپنی جان کا نذرانہ محض اس لیے پیش کر دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مدینۃ النبیؐ میں خون بہے پھر امام حسینؓ پر یہ بدگمانی ممکن ہی نہیں کہ آپؓ اپنے ذاتی اقتدار کے لیے مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔
تو پھر وہ کون سے اصول تھے جن کی خاطر آپؓ نے یزید کو سر دینا تو گوارا کر لیا لیکن اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینا گوارا نہ کیا۔ کیا یزید کے حکمران بن جانے سے کفر کی حکومت آ جانی تھی؟ نام نہاد کلمہ گو تو وہ بھی تھا، نماز کا اہتمام تو اس کی فوج کے کیمپوں میں بھی ہوتا تھا، مسجدوں سے اذانوں کی صدائیں تو اس کی سلطنت میں بھی بلند ہوتی تھیں۔ نہ تو دعوت و تبلیغ کے سلسلہ پر کسی قسم کی پابندی لگنے والی تھی اور نہ ہی مساجد سے وعظ و نصیحت رک جانے کا کوئی خطرہ امڈ آیا تھا۔ نہ فلسفہ توحید و شرک کو کوئی نقصان پہنچنے والا تھا اور نہ ہی الہامی کتاب قرآن مجید کے بجائے کوئی اور صحیفہ سلطنت میں عام ہونے والا تھا مانا کہ یزید شعائر اسلامی کا مذاق اڑانے والا عیاش اور بُرے کردار کا مالک تھا لیکن سیدنا حسینؓ جیسے صبر و تحمل رکھنے والے اور شریعت کا گہرا ادراک رکھنے والے شخص سے یہ امید کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ نظام حکومت میں تو کوئی فرق نہ آئے لیکن وہ محض اس لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے نکل کھڑے ہوئے کہ ایک بدکردار شخص کے ہاتھوں اختیار و اقتدار آ گیا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ سیدنا حسینؓ نے اتنی عظیم قربانی دی؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر امام حسینؓ نے راہ رخصت کو چھوڑ کر راہ عزیمت کو اپنایا تو سیدنا حسینؓ کی نظر میں وہ مقصد بہت عظیم ہو گا وہ اصول و ضوابط بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے جن کی خاطر آپؓ نے ہر قسم کی قربانی کو جائز سمجھا۔
دراصل سیدنا حسینؓ جیسی معاملہ فہم اور دور اندیش ہستی کو یزید کی ولی عہدی اور جانشینی میں وہ خرابی نظر آ گئی تھی جو دین اسلام میں بطور نظام پیش آنے والی تھی انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ وہ اسلامی ریاست جس کا تصور نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی اجمعین نے تیس برس تک دیا تھا اس میں بگاڑ آنے والا ہے اسلام میں موروثی بادشاہت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اسلامی ریاست میں بادشاہت اور اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے اور حکمران صرف نظام سلطنت چلانے والے نمائندہ و امین ہوتے ہیں۔ ان نمائندوں کو نظام شورائیت کے تحت آزادانہ انتخابات سے منتخب کیا جاتا ہے اور یہ انتخاب باہمی مشورہ سے ہوتا ہے۔ اس انتخاب میں خلیفہ کی جانب سے اقتدار کا ذاتی حرص و طمع شامل نہیں ہوتا، ووٹ حاصل کرنے کے لیے سازشیں نہیں ہوتیں، ووٹ افراد کا ذاتی اختیار ہوتا ہے کوئی کسی پر زور ڈال کر یا جبراً ووٹ لینے پر مجبور نہیں کرتا۔ عوام کی جانب سے اقتدار دیا جاتا ہے اور عوام کی حمایت چھن جانے پر اختیار و اقتدار ہٹ جاتے ہیں۔ دین اسلام کے ریاستی امور میں اظہار رائے کی آزادی پہلے نمبر پر ہوتی ہے لوگ بلا خوف اپنے حکمرانوں پر تنقید کر سکتے ہیں ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ ایک عام فرد کھڑے ہو کر ان کی چادر کے بارے میں سوال کر سکتا ہے، کرپشن کے ممکنہ خطرہ پر باز پُرس کر سکتے ہیں خلیفہ وقت سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی لباس آپ کو کہاں سے ملا اور خلیفہ وقت جب تک اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے دیتا اس کی تعظیم کو اپنے اوپر لازم قرار نہیں دیتے۔ معاشرہ کا کمزور طبقہ اپنے حقوق پر لگنے والی پابندیوں کو رکوا سکتا ہے، ایک عورت بھرے دربار میں کھڑے ہو کر اپنے حقوق پر لگنے والی ضرب پر خلیفہ وقت کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہے، قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور قانون کے سامنے سب جواب دہ ہوتے ہیں بڑے سے بڑے عہدہ پر فائز حکمران بھی جج کے بلانے پر عدالت میں آتا ہے، کسی حاکم وقت کو قانون میں رعایت نہیں ہے جبکہ کسی بھی قسم کی بادشاہت میں ایسا نہیں ہوتا۔ امام حسینؓ نے کربلا کی ریت پر اپنے خون سے حق و باطل کا معرکہ بپا کر کے منتخب کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت واضح کی ہے ملوکیت و موروثیت کے بت کو پاش پاش کرتے ہوئے اسلامی ریاست میں انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں جانے والی بدعت و گمراہی سے نجات دلائی ہے انہوں نے حق و باطل کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے حسینیت آمریت یا آمریت کی کسی بھی قسم کی شکل کو نہیں مانتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وطن عزیز کو اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا آج جہاں ہم محرم الحرام میں شہادت حسینؓ پر سوگ مناتے ہیں وہاں یزید کی پیروی کر رہے ہیں۔ دور حاضر میں ہمارے حکمران یزید کے کردار کی مثالیں ہیں، کرپشن، موروثیت اور ملوکیت ان کرداروں کے اندر گھر کر گئیں ہیں۔ حکومت کے لیے منتخب نمائندوں کی خرید و فروخت کھلے عام ہوتی ہے۔ اور ہم ان تینوں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جو یزید کے راست پر چل رہی ہیں یا حسینؓ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی صف میں کھڑا ہونا۔ بات صرف محرم الحرام پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اسلامی نظام حکومت کا قیام واقعہ کربلا کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے۔ میرے وطن کے لوگو دیانتدار لوگوں کا انتخاب کریں تاکہ آخرت میں سیدنا حسینؓ کے چاہنے والوں کی قربت حاصل ہو۔