مسلم لیگ ن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے تو یہ ایسا کچھ غلط نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر پایا جانے والا ہم خیالی، یکسوئی اور اتفاقِ رائے کا فقدان یا دوسرے لفظوں میں میاں شہباز شریف سے منسوب مفاہمتی بیانیے اور میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز سے منسوب مزاحمتی بیانیے کا اختلاف اس طرح سامنے آرہا ہے کہ اس کے منفی اثرات اور نتائج اوپر سے لیکر نچلی سطح تک پارٹی راہنماوں اور کارکنوں میں اثر پذیر ہو چکے ہیں۔اس کے نتیجے میں جہاں مسلم لیگ ن کے ہم نواؤں، بہی خواہوں، ہمدردوں اور ہم خیالوں متوالوں میں مسلم لیگ ن کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی اور ناامیدی نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے ہیں وہاں اپنی قیادت کے بارے میں ان کے تحفظات، خدشات اور منفی خیالات میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی اعلیٰ ترین قیادت میں بیانیے یا حکمت عملی کا اختلاف کوئی نیا نہیں۔یہ اختلاف جولائی 2017ء میں میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وزارت عظمٰی اور عوامی نمائندگی سے تاحیات نا اہل قرار دینے کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صورت میں شروع ہو گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلم لیگ ن نے دونوں طرح کے بیانیے، میاں محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز اور ان کے ہم نواؤں سے منسوب مزاحمتی بیانیہ اور میاں شہباز شریف اور ان کے بعض ساتھیوں سے منسوب مفاہمتی بیانیہ ساتھ ساتھ چلنے ہی نہ لگے بلکہ ہر دو بیانیوں کے مثبت اور منفی نتائج اور اثرات بھی سامنے آنے لگے۔ بظاہر میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کے مزاحمتی بیانیہ جسے "ووٹ کو عزت دو"کے سلوگن یا نعرے کا روپ دے دیا گیا کو جماعتی اور عوامی سطح پر زیادہ پذیر رائی ملی۔ لیکن میاں شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے اثرات اور فوائد بھی یقینا سامنے آئے کہ ان سے مستفید ہوتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل کی کال کوٹھڑیوں سے نکل کر لندن جانا نصیب ہوا،جہاں وہ اپنے دونوں بیٹوں اور ان کے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت ہی نہیں گزار رہے ہیں بلکہ لندن کے مشہور زمانہ ہائیڈپارک کی سیر اور لندن کے کافی ہاوسز میں کافی پینے اور برگر کھانے سے بھی لطف اندوز ہو تے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ جب ان کا جی چاہتا ہے وہ اپنی خاموشی توڑ کر پاکستان کے مستقل ریاستی اداروں جنہیں عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے کے خلاف بیان بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف میاں شہباز شریف جنھیں عمران خان کی حکومت کسی صورت میں بخشنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ انہیں اپنا سب سے بڑا رقیب اور دشمن سمجھتی ہے کہ کل کلاں وہ مستقل ریاستی
اداروں یا اسٹیبلشمنٹ سے مسلم لیگ ن کی مفاہمت کی صورت میں تحریک انصاف کو اقتدار سے محروم ہی نہیں کر سکتے ہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کی راہ بھی مسدودکر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف نیب مقدمات اور انکوائریاں جہاں جاری رہتی ہیں وہاں دونوں باپ بیٹے کو لمبے عرصے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بندبھی رہنا پڑاہے۔ تاہم میاں شہباز شریف "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ" کے مصداق اپنے مفاہمتی بیانیے سے دستبردار ہونے یا دوسرے لفظوں میں مستقل ریاستی اداروں سے بگاڑ پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا واضح لفظوں میں کہنا ہے کہ میں ہمیشہ سے قومی مصالحت چاہتا ہوں۔ ہم فرشتے نہیں نواز شریف سے بھی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہونگی۔ وہ انسان ہے آدمی جذبات میں آکر باتیں کر جاتا ہے۔
حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست، اس کی صرف چھ نشستوں پر کامیابی اور سیالکوٹ کے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی تحریک انصاف کے امیدوار کے مقابلے میں 7ہزار ووٹوں سے ناکامی اور میاں شہباز شریف کے ایک معروف ٹی وی اینکر کو دیئے گئے انٹر ویومیں اپنے مفاہمتی بیانیہ کے حق میں دلائل نے دونوں بیانیوں میں عرصے سے جاری عیاں اور نہاں کشمکش اور اختلافات کو اور زیادہ نمایاں اور اجاگر کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست نے محترمہ مریم نواز اور آزاد کشمیر میں 5سال تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے راجا فاروق حیدر کی وساطت اور مہربانیوں سے میاں محمد نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے یا عرف عام میں "ووٹ کو عزت دو"کے سلوگن کو کمزور کیا ہے۔ راجا فاروق حیدر کو آزاد کشمیر کے انتخابات میں بری طرح ناکامی کا سامنا کر نا پڑا ہے۔ وہ کسی حد تک اسی سلوک کے حقدار سمجھے جا سکتے ہیں کہ انھوں نے ایک دور (2011)میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے کچھ نا عاقبت اندیش دوسرے درجے کے مسلم لیگی راہنماوں کی ایماء اور اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی روایتی اور خاندانی ریاستی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس جو ہمیشہ سے "کشمیر بنے گا پاکستان "کے نعرے پر کاربند رہی ہے سے بے وفائی کرتے اور اس کے پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس کے بطن سے مسلم لیگ ن وجود میں لائے۔ تاہم محترمہ مریم نواز قابل رحم ہیں کہ انتہائی گرمی اور حبس کے موسم میں وہ زور شور سے مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں جُتی رہیں۔ انھوں نے نہ دن دیکھا نہ رات، نہ ہی اپنے آرام کی پرواہ کی۔ بھرپور انتخابی مہم ہی نہیں چلائی بلکہ بڑے بڑے پر ہجوم جلسوں سے بھی خطاب کیا۔ شومئی قسمت کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی سمیٹنے کے بجائے الٹا انہیں کرونا کی وباء کا سامنا کرنا پڑا اور پچھلے دس بارہ دنوں سے وہ جاتی امرا میں قرنطینہ اختیار کیے ہوئے خاموش پڑی ہیں۔ یقینا اس سے بھی میاں محمد نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے جس کی محترمہ مریم نواز سب سے بڑھ کر موید ہیں کوہزیمت اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف میاں محمد نواز شریف کے برادر اصغر، پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف جنہوں نے ایک ڈیڑھ ماہ قبل یہ کہا تھا کہ مفاہمت پر آمادہ کرنے کے لیے اپنے بھائی اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے پاوں پکڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بنا پر انہیں مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید، طنز اور طعن و تشنیع کا سامنا رہا تھا اور شاید اسی بنا پر وہ اپنے مفاہمتی بیانیے کے حوالے سے چپ سادھے ہوئے تھے انھوں نے اپنی چپ کا روزہ توڑا اور ایک بار پھر پورے زور شور سے اپنے مفاہمتی بیانیے کی وکالت ہی نہیں کی بلکہ 2018کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ناکامی کی وجہ مسلم لیگ ن کی طرف سے اجتماعی مشاورت کے ذریعے بہتر حکمت عملی اختیار نہ کرنا قرار دے دیا۔میاں شہباز شریف نے ان خیالات کا اظہار جیونیوز کے معروف اینکر سلیم صافی کو تفصیلی انٹر ویو دیتے ہوئے کیا جسے قومی معاصر "جنگ" نے صفحہ اوّل پر شائع کیا ہے۔
میاں شہبازشریف کے اس انٹرویو میں جو کچھ کہا گیا ایسا کچھ غیر حقیقی نہیں کہ ملک کے پچھلے اڑھائی دو عشروں یا اس کے بعد کے برسوں کے حالات و واقعات سامنے رکھیں تو ان میں سے بہت ساری باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ میاں شہباز شریف کی ان باتوں کو کوئی مانتا اور صحیح سمجھتا ہے یا نہیں صحیح سمجھتا تو یہ اس کی مرضی تاہم مسلم لیگ ن کے قائد اور میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھ مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے ایسے بیانات یا خیالات ضرور سامنے آئے ہیں جن میں انھوں نے میاں شہباز شریف کے خیالات کی اگر تردید نہیں کی تو تائید بھی نہیں کی۔میاں نواز شریف نے ٹویٹ جاری کرتے ہوئے اپنے جارحانہ بیانیے کے ساتھ آگے بڑھنے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور عوام میں خلیج ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔مسلم لیگ ن کے نائب صدر اور سابق وزیر اعظم جنا ب شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست کی وجہ ناقص حکمت عملی نہیں تھی، یہ طے شدہ معاملہ تھا۔
میاں شہباز شریف کے تفصیلی انٹرویو اور میاں نواز شریف کے ٹویٹ اور جناب شاہد خاقان عباسی کے خیالات کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر یکسوئی، ہم خیالی اور اتفاق ِ رائے کا فقدان ہی نہیں پایا جاتا ہے بلکہ واضح اختلافات بھی موجود ہیں۔