دنیا تو دسمبر 2019ء میں کورونا سے متعارف ہوئی لیکن ہم گزشتہ 70 سالوں سے اِس وائرس سے نبردآزما ہیں۔ نامِ نامی، اسمِ گرامی اِس کورونا کا ”اشرافیہ“ ہے جس نے ارضِ وطن کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ وہی کورونا ہے جس کے نہ صرف پروٹوکول بلکہ حفاظتی انتظامات پر ہر سال کئی ارب روپے صرف ہوتے ہیں بلکہ اِدھر اُدھر مُنہ مارنے میں بھی اِس کاکوئی ثانی نہیں۔ ہم نے پارلیمانی جمہوریت نامی ویکسین آزما لی، صدارتی جمہوریت کی ڈوز دے کر بھی دیکھ لی اور آمریت کے انجیکشن بھی لگائے لیکن تاحال کوئی تیر بہدف نسخہ دریافت ہوسکا نہ علاج۔ جب کچھ بن نہ پڑا تو ہم طعنوں مہنوں پر اُتر آئے کہ کمزور اِس کے سوا کر بھی کیا سکتاہے۔ کسی نے لوٹا کہا تو کسی نے لُٹیرا۔ کوئی گھوڑا کہنے پر مصر ہوا تو کسی نے ادبی رنگ اختیار کرتے ہوئے بھنورا کہہ دیا لیکن اِس کورونا پر ”کَکھ“ اثر نہیں ہوتا۔ تاحال اِس کی ڈھینچوں ڈھینچوں برقرار۔ سُنا ہے کہ دنیا میں پھیلنے والا ”ڈیلٹا“ نامی کورونا اب ”ڈیلٹا متغیر“ کے روپ میں سامنے آرہا ہے۔ اِسی طرح پاکستانی ”کورونے“ بھی اپنی ہیئت بدلتے رہتے ہیں۔ آمریت ہو تو آمر کی قدم بوسی کرتے ہوئے اُسے 10 بار وردی میں منتخب کروانے کے دعوے، جمہوریت آئے تو اُسے بہترین انتقام کا نام دے دیتے ہیں۔ جب یہ صورتِ حال ہو تو اِس کا بھلا کیا علاج، چِت بھی اُن کی، پَٹ بھی اُن کی۔ جمہوریت ہو یا آمریت، حکومت ہمیشہ اِنہی ”کورونوں“ کی ہوتی ہے۔ ہم نے چونکہ سیاست کو ٹھونگے مارنا بند کر دیا ہے اِس لیے ”مٹی پاؤ“ اور اصلی کورونا کی بات کرو۔
2020ء میں دنیا میں ایلفا، بِیٹااور گیما نامی کورونا کی اقسام کا راج تھالیکن پھر 2021ء میں ڈیلٹا نامی ویرینٹ نے سب کو مات کر دیا۔ یہ قسم بھارت سے نکلی اور پوری دنیا پر چھا گئی۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ ڈیلٹا کے شکار افراد میں کورونا کی علامات پرانی اقسام کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے قائد پروفیسر ٹم اسپیکٹرکا دعویٰ ہے کہ ڈیلٹا کی علامات بگڑے ہوئے نزلے جیسی ہوتی ہیں اور یہ دیگر اقسام سے 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔ یہ تحقیق بھی ہوئی ہے کہ ویکسینز سے اِس وائرس سے تحفظ تو ضرور ملتا ہے مگر مکمل نہیں۔ یہ شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ جب ووہان (چین) سے وبائی بیماری کا آغاز ہوا تو اِس کی صلاحیت 2.5 تھی لیکن ڈیلٹا میں اِس کی صلاحیت 8.0 تک ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں وائرل ارتقا کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر ایریس کہتے ہیں ”اِس وائرس نے ہمیں حیرت
میں ڈال دیا ہے۔ یہ ہمارے کسی بھی خوف سے بڑھ کر ہے۔ یہ وائرس کس حد تک بڑھ سکتا ہے، اِس کی پیشین گوئی کرنے کا خیال بھی احمقانہ ہے لیکن اندازہ ہے کہ اگلے 2 سالوں میں یہ بہت بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے اور اِس کی مختلف خطرناک اقسام بھی دیکھی جا سکتی ہیں“۔ ساری دنیا کے طبّی ماہرین اِس وائرس کے خلاف سرجوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہم نے تحقیق نہ کی ہو۔ہمارے ”عوامی طبّی ماہرین“ کے مطابق اوّل تو یہ وائرس وجود ہی نہیں رکھتا، بس نزلہ زکام ہے جو ”جوشاندہ“ پینے سے ختم ہو جاتا ہے اور اگر یہ کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہے بھی تو اِس کے لیے بیشمار جڑی بوٹیاں ہیں۔ کسی نے کہا کہ پیاز اتنے کھاؤ کہ جسم سے پیاز کی بُو آنے لگے، کورونا خود بخود بھاگ جائے گا۔ کوئی لہسن اور ادرک کا تیر بہدف نسخہ سامنے لے آیا تو کسی نے سنامکی اور زیتون کے پتوں کو اپنی زندگی کا حصّہ بنانے پر زور دیا۔سچی بات یہ کہ ویکسینیشن کے خیال ہی سے ہمیں ہول اُٹھنے لگتے تھے کیونکہ ہم تحقیق کر چکے کہ ویکسین کے اندر بِل گیٹس نے ایسی چِپ ڈال رکھی ہے جو اندر داخل ہوتے ہی آپ کو بِل گیٹس کا غلام بنا دے گی اور آپ کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہے گا۔ یہ سوچنے کی کسے فرصت کہ ہمارے اندر آئی ایس آئی یا آئی بی کے ایسے کون سے راز پوشیدہ ہیں جن کی بِل گیٹس کو ضرورت ہے۔ بہرحال جب حکومت نے اعلان کر دیا کہ جو ویکسینیشن نہیں کروائے گا اُس کی تنخواہ اور موبائل سِم بند کر دی جائے گی توہم نے سوچا کہ ہمارے پاس سوائے موبائل کے اور کون سی تفریح باقی رہ گئی ہے جو اِس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں اِس لیے طوہاََ و کرہاََ ویکسینیشن سینٹر کا رُخ کیا۔ اب ہماری طرح ہر کہ ومہ اپنی تنخواہ اور سِم بچانے کے لیے ویکسینیشن سینٹرکی طرف اور حکومت ”وَخت“ میں۔
این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سواریوں کی گنجائش 50 فیصد ہوگی اور دفاتر میں حاضری بھی 50 فیصد۔ دفاتر میں 50 فیصد حاضری تو شاید قابلِ عمل ہو لیکن کیا پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی؟۔ اسد عمر کو یقیناََلاہور میں سڑکوں پر بھاگنے والی ویگنوں اور چنگ چی رکشوں میں سفر کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں 50 فیصد سواریوں کی گنجائش کا احمقانہ خیال دل سے نکال دیتے۔ چنگ چی رکشے کی تو کل لمبائی بھی 6 فٹ نہیں ہوتی، وہاں 6 فُٹ کا سماجی فاصلہ کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟۔ یہی حال ویگنوں کا بھی ہے جن میں اگر گنجائش سے50 چھوڑ 25 فیصد سواریاں بھی بٹھائی جائیں تو سماجی فاصلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بسوں میں اگر سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہے تو50 سواریوں والی بَس میں 10 سواریوں سے زیادہ گنجائش نہیں نکل سکتی۔ اِس لیے اِدھر اُدھر کی بونگیاں مارنے کی بجائے بات وہ کریں جو قابلِ عمل بھی ہو۔
پچھلے دنوں ہمیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کے سلسلے میں نادرا اور پاسپورٹ آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ اِس کا قصہ بھی سُن لیجئیے۔ جونہی ہم گھر سے نکل کر کالج روڈ (لاہور) پہنچے، ٹریفک کے اژدہام نے گھیر لیا۔یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ لاہور کی ٹریفک کنٹرول کرنا ہماری ٹریفک پولیس کے بس کا روگ نہیں لیکن اُس دن ہم نے کچھ زیادہ ہی بے ہنگم ٹریفک کا سامنا کیا۔ موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے لیے تو شاید ابھی تک ٹریفک کے اصول وضوابط طے ہی نہیں ہوئے۔ اِسی لیے نوجوان موٹرسائیکل سوار پوری سڑک پر پھیل کر یوں چلتے ہیں جیسے یہ اُن کی ذاتی جاگیر ہو۔ کبھی کبھی ترنگ میں آکر وہ ”وَن ویلنگ“ کے کرتب بھی دکھانے لگتے ہیں۔ حیرت ہے کہ کسی بھی حکومت نے کبھی اُن حادثات کی طرف توجہ نہیں دی جو موٹرسائیکل سواروں کی وجہ سے روزانہ پیش آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جولائی 21ء میں صرف پنجاب میں موٹرسائیکلوں کے32551 ٹریفک حادثات ہوئے، 35626 زخمی ہسپتال پہنچے، 498 جان سے گئے جن میں سے صرف لاہور میں 150 گھروں میں صفِ ماتم بچھی۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے کہ اگرہر شاہراہ کا ایک مخصوص حصّہ موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے لیے مختص کر دیا جائے تو اِن حادثات میں بہت حد تک کمی ہو سکتی ہے لیکن ہماری بھلا سُنتا ہی کون ہے۔
شناختی کارڈ کے آفس پہنچے تو آفس کے باہر ایک چھوٹی سی کھڑکی کے آگے بلا امتیازِ مردوزَن ایک جمِ غفیردیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہیں سے اند داخلے کے لیے ٹوکن ملے گا، یہیں سے شناختی کارڈ کے بارے میں معلومات اور یہیں سے نیا شناختی کارڈ۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایسا ”کھڑکی توڑ“ رَش تو سینما گھروں میں بھی نہیں ہوتا تھا جیسا وہاں نظر آیا۔ جب معلوم ہوا کہ حکومت ”سینئر سٹیزنز“ کے لیے خصوصی انتظام وانصرام کر رہی ہے تو ہم نے سوچا کہ چونکہ ہمارے وزیرِاعظم بھی سینئر سٹیزن ہیں اِس لیے اُنہیں کمزوروناتواں بزرگ شہریوں کا خیال آگیا ہوگا۔البتہ ڈیڑھ مرلے کے شناختی کارڈ آفس نے اِسے خواب وخیال میں بدل دیا کیونکہ وہاں جونیئرسینئر تو کجا مردوزَن کی بھی کوئی تمیز نہ تھی۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ آفس میں ہم پر کیا بیتی، یہ کہانی کسی اور کالم میں۔ یہاں فقط اتنا ہی کہ اِن حکومتی اداروں میں سماجی فاصلہ تو درکنار، ماسک پہننے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔