لاہور : لاہور ہائیکورٹ میں بچے کی بیرون ملک سے بازیابی کیلیے ماں کی درخواست پرسماعت کے دوران عدالتی احکامات نظرانداز کرنے پر عدالت کاوفاقی سیکرٹری داخلہ خرم آغا اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم نظر انداز کرنے پرکیوں نہ توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔عدالت نے وفاقی سیکرٹری خارجہ اور وفاقی سیکرٹری داخلہ سے بلجئیم سے بچے کی بازیابی کےلئے ایک ماہ میں عمل درآمد رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 8مئی تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے خاتون کی درخواست پر سماعت کی ۔درخواست گزار رابعہ نےبچے منان کی بیرون ملک سےواپسی کےلئے عدالت سے رجوع کررکھاہے۔سابق خاوند جعلی کاغذات پر بچے کو غیرقانونی طور پر بیرون ملک لےگیا۔
سیکرٹری داخلہ نے عدالت میں کہا کہ میں نے ایک ہفتہ پہلے چارج لیاعدالتی حکم پر عمل درآمد کےلئے دو ماہ کا وقت دیاجائے، اس کیس کو ٹیک اپ کر لیا ہے، تاخیر ہوئی ہے اس پر معذرت خواہ ہیں۔بچے کا ڈی این اے کراکےرپورٹ پیش کردی گئی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب باتیں بہت پرانی ہیں خاتون کو دھکے کھاتے دوسال گزر چکے ہیں۔اب زیادہ وقت نہیں دیا جا سکتا ورنہ آپ کےبڑوں کو بلالیتے ہیں،اگرآئندہ سماعت تک عمل درآمد نہ کیا گیا تو وزراء اور وزیراعظم کو طلب کیاجائے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزارت داخلہ نے بچے کےباپ کی گرفتاری سے متعلق عدالت سے جھوٹ بولا۔وزارت داخلہ میں نکمے لوگ بھرتی کئے گئے ہیں۔
سیکریٹری داخلہ محمد خرم آغا نے کہا کہ یہ 2 ملکوں کا معاملہ ہے، بیلجیئم سے رسپانس کتنے دنوں میں آتا ہے میں کنفرم نہیں بتا سکتا، ہمیں 2 ماہ کی مہلت دے دیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ شہزاد احمد نے سیکریٹری داخلہ کو جواب دیا کہ 2 ماہ کا وقت نہیں ملنا، وزارت داخلہ نے بچے کےباپ کی گرفتاری سے متعلق عدالت سے جھوٹ بولا۔آپ نے کورٹ سے دھوکا کیا ہے، کبھی کہتے تھے کہ ملزم بیرونِ ملک سے گرفتار ہو گیا، آپ نے ایسی ٹیم بنائی ہوئی ہے جو بالکل فارغ ہے، وزارت داخلہ میں نکمے لوگ بھرتی کئے گئے ہیں۔
اس موقع پر عدالت نے رپورٹ پیش نہ کرنے پر اسحاق ڈار پر اظہارِ ناراضی کیا۔
بعد ازاں عدالتِ عالیہ نے وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے دوبارہ تازہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے 1 ماہ میں کمسن بچے کی بیرونِ ملک سے واپسی سے متعلق پیش رفت رپورٹ مانگ لی اور مزید سماعت 8 مئی تک ملتوی کر دی۔