حالیہ سیاسی بحران کا ایک سبب اپوزیشن کے ساتھ کپتان کا رویہ بھی ہے، انھوں نے تحریک عدم اعتماد کو حق و باطل کی جنگ بنا دیا ہے، وہ اپنے علاوہ کسی کو بھی محب وطن سمجھنے اور ماننے کو تیار نہیں ہیں،عوامی جلسوں میں انکا لہجہ ایک قومی لیڈر کا قطعی نہیں تھا،جس انداز میں وہ اپوزیشن کی قیادت پر برسے وہ کم از کم ان کے شایان شان نہ تھا، ایک تو وہ فارن کوالیفائڈ ہیں دوسرا کرکٹ کے حوالہ سے انھیں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے، وہ کون سی ریاست ہے جہاں سیاسی اختلافات نہیں ہوتے، عدم اعتماد کی تحریک ایوانوں میں پیش نہیں کی جاتی لیکن جس طرح انھوں نے اس کو ایک پارٹی معرکہ جان کر بہت سے فیصلے عجلت میں کئے ہیں اسکی مثال نہیں ملتی۔
اقتدار کے آخری عہد میں یہ اعتراف کہ انھیں کمزور حکومت کی باگ ڈور نہیں سنبھالنی چاہئے خود انکی ناکامی کو عیاں کرتا ہے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ پراظہار رائے دینا انکی صلاحیتوں کے سامنے خود ایک سوال ہے، تحریک عدم اعتماد کی باز گشت تو کئی ماہ سے سنائی دے رہی تھی،اپوزیشن کے جلسے بھی انکے سامنے تھے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے بہی خواہوں اور اتحادیوں کو جمع کر کے انھیں دعوت دیتے کہ انکی جگہ کسی اور کو قائد ایوان منتخب کر لیا جائے،بقیہ پارلیمانی مدت کے لئے یہ قطعی گھاٹے کا سودا نہ تھا، اس طرح انکی سرکار چلتی رہتی اوروہ آئینی مدت کے بعد سرخرو ہوتے، دوسرا حل یہ تھا کہ وہ بڑے دل اعلیٰ ظرف کے ساتھ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد تحریک کا سامنا کرتے، اپنے اقدامات ہائوس کے سامنے رکھتے، ناکامیوں کا اعتراف کرتے،پھر جس کے حق میں فیصلہ ہوتا اقتدار منتقل کر کے اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اس سے ان کے سیاسی قد میں بے پناہ اضافہ ہوتا اور وہ تاریخ میں امر ہو جاتے،ایوان میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے،تو انھیں اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونا پڑتا۔
اپوزیشن قبل از وقت انتخابات چاہتی تھی تو انھیں مذاکرات کی دعوت دیتے، انتخابی اصلاحات سے لے کر شفاف الیکشن تک تمام معاملات دوستانہ انداز میں حل کر لیتے تو سیاسی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے مگر انھوں نے اس طریقہ کا انتخاب کیا ہے جس کا راستہ آئینی بحران کی طرف جاتا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی ایوان زیریں میں دی گئی رولنگ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے، کپتان کی جانب سے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس
کے بعد ان تمام افراد نے آنکھیں پھیر لی ہیں، جو عوامی حلقوں میں کپتان کے قابل اعتماد ساتھی کہلاتے تھے، اس سے بڑھ کر انھوں میڈیا کی وساطت سے الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے، پنجاب کی حکومت کے حوالے سے مالیاتی سکینڈل سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، جس نے کپتان کی پاک دامنی کو داغدار کر دیا ہے، عالمی حلقوں میں اس خط کا بھی تذکرہ ہے ،جو کپتان نے عوامی جلسہ میں لہرا کر یہ تاثر دینے کی بھونڈی کاوش کی کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی قوتیں کار فرما ہیں۔
انکے ناقدین کا کہنا ہے کہ حساس اور خارجہ امور کے متعلق معلومات کو عوامی جلسوں میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا،ان سے وابستہ معاملات کو دیکھنے اور حل کرنے کے لئے باقاعدہ قومی ادارے موجود ہیں، کپتان اگر اس بابت کچھ تحفظات رکھتے بھی تھے تو انھیں متعلقہ فورم ہی سے رجوع کرنا چاہئے تھا، اپوزیشن کی مدد بھی انھیں درکار تھی تب بھی وہ اسکی قیادت کو اعتماد میں لیتے لیکن انھوں نے حق و باطل کی معرکہ پالیسی کو اپنا کر ان سے ہمدردی لینے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے خود بند کر دیا،انکے ماضی کے رویہ ہی کی بدولت بہت سے اراکین اسمبلی مخالفین کی صفوں میں چلے گئے،اگرچہ ان پر بھاری رقوم کے عوض وفاداریاں تبدیل کرنے کا الزام ہے،لیکن بغیر کسی تحقیق کے کپتان کی جماعت کے کارکنان نے سوشل میڈیا پر انکی حیاتی تنگ کر رکھی ہے،اس طرح کی شکایت کے ازالہ کے لئے الیکشن کمیشن ہی متعلقہ فورم ہے، محض افواہوں پر کان دھرنے کے نتائج اچھے نہیں نکلتے، گورنر پنجاب کو عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ اس کا فیض اور عجلت کا نتیجہ ہے، تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر انھوں نے اپنا دل کھول کر میڈیا کے سامنے رکھ دیا جس سے بدعنوانیوں کی کہانیوں کے سوا کچھ برآمد نہ ہواس سے مماثلت رکھتی کہانیاں لاہور سے انکے دیرینہ ساتھی نے بھی پریس کی وساطت سے بیان کی ہیں، خاتون اول کی ہمراز کے حوالہ سے بھی شور مچا ہوا ہے، دو بئی فرار ہونے والی خاتون کے دامن سے لپٹی بدعنوانی عوامی حلقوں میں زیر گردش ہے، اگر اس میں حقیقت ہے اور یہ سب کچھ کپتان کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ،اس پر ان کا آنکھیں بند رکھنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، مگر وہ اپوزیشن کو چور اور ڈاکو کے القابات سے نوازتے رہے ۔
پنجاب کی حکومت کے حوالہ سے بہت پہلے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا، اسکے پردھان منتری کی تبدیلی کا مطالبہ دبے الفاظ میں کپتان تک پہنچایا جاتا رہا،مگر انھوںنے 60فیصد آبادی والے صوبہ کی ترقی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنا دست شفقت اس پر رکھے رکھا تاآنکہ ایک سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔
آئینی مدت کا پورا نہ ہونا اتنا اہم نہیں مگر دولت کے عوض سیاسی وفاداریاں بدلنا زیادہ سنگین ہے، اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے، کہ مقتدر طاقتوں کے بل بوتے پر مسند اقتدار پر قدم رکھنے کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے،ایسے اقتدار عوامی حمایت سے محروم ہوتے ہیں،اس ساری کہانی میں یہ تو طے ہوا کہ الیکٹیبل کی سیاست بھی ناکام ہو گئی ہے،دولت اور مقتدر حلقوں کے بل بوتے پر ارکین اسمبلی کو عوامی مسائل سے زیادہ دلچسپی بڑوں کی خوشنودی میں ہوتی ہے وہ اس میں ہی پناہ لیتے ہیں۔
نجانے عدالتی فیصلہ کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کپتان کے عجلت میں کئے فیصلوں کی بدولت انھوں نے امیج کو داغدار کر دیا ہے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کپتان چاہتا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ غیر جانبدار نہ ہو ،عدلیہ بھی اس کے ساتھ ہو،مگر ملکی بحران سے نکلنے کا راستہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات سے ہو کر گزرتا ہے۔
اپوزیشن بھی موجودہ حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بجائے افہام و تفہم کا راستہ اختیار کرے،ان معاملات پر یکسوئی اختیار کرے، جو اس بحران سے نکلنے کے لئے لازم ہیں، مختلف ٹاک شوز میں اپوزیشن کی قیادت انتخابی اصلاحات لانے کا عندیہ دیتی رہی ہے، جس میں کسی بھی آئینی ادارہ کی مداخلت نہ ہو، کوئی بھی سیاسی جماعت کسی اشارے یا بیساکھی کی منتظر نہ ہو، خیبر پختون خوا میں لوکل باڈی کے حالیہ انتخابات پر کسی نے دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا جو کہ قابل تحسین ہے،الیکشن کمیشن کے بارے میں سیاسی حلقوں میں مثبت رائے پائی جاتی ہے،لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ساری جماعتیں مل بیٹھ کر کوئی روڈ میپ قوم کے سامنے رکھیں، مہنگائی، بے روزگاری، لا قانونیت کے بوجھ تلے دبی عوام سیاسی تماشا دیکھ کر مایوس ہے، وہ خدشہ کا اظہار کر رہی ہے،کہ بلی چوہے کا کھیل ماضی کی طرح اگر جاری رہا تو قوم کو خوشحالی میسر آسکتی ہے نہ ہی انکے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے۔ الزام در الزام کی اگر مشق جاری رہتی ہے، تو اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ اس عمل سے جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔
نیا سیاسی بحران
08:43 AM, 8 Apr, 2022