سرینگر: مقبوضہ کشمیر بھارتی ظلم و ستم کی داستان جاری ہے اور اب پولیس نے ’مسلح جھڑپوں‘ اور امن و امان سے متعلق معاملات کی میڈیا کوریج کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے جس پر صحافتی تنظیموں، اداروں اور صحافیوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس حوالے سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق مقبوضہ کشمیر پولیس کے سربراہ جنرل وجے کمار نے صحافیوں کو کشمیری مجاہدین کیساتھ ہونے والی جھڑوں سے دور رہنے اور ان کی براہ راست میڈیا کوریج نہ کرنے کی ہدایت کی ہے جو کئی دہائیوں سے کشمیر کی آزادی کیلئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔
مقبوضہ کشمیر پولیس نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے معقول پابندیوں کی تابع ہے اس لئے صحافیوں سے درخواست ہے کہ وہ جھڑپوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگیوں میں دخل اندازی نہ کریں۔ صحافی نقص امن کی وجہ بننے والے یا ریاست مخالف سوچ کی تشہیر کرنے والا مواد شائع نہ کریں۔
مقبوضہ کشمیر پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامہ کی درجنوں صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے مخالفت کی ہے جن کا کہنا ہے کہ اگر یہ پولیس کی آفیشل پالیسی کا حصہ ہے تو پھر یہ صحافیوں کو حقائق دکھانے سے روکنے کے مترادف ہے۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ حکام کی جانب سے خطے میں آزادی اظہار رائے کو ختم کرنے کی جانب ایک اور قدم ہے کیونکہ گزشتہ دو سالوں کے دوران صحافیوں کو تھانوں میں طلب کرنے، ایف آئی آر درج کروانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صحافتی تنظیموں کا مزید کہنا ہے کہ کشمیری صحافی گزشتہ چند دہائیوں سے انتہائی دباﺅ میں کام کر رہے ہیں جو اپنی جان و مال اور آزادی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیشہ صحافتی اصولوں پر کاربند رہے جبکہ آزادی صحافت پر اس طرح کے حملے بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے ایک جھڑپ کی کوریج کے دوران پولیس اہلکار کی جانب سے فوٹوجرنلسٹ پر تشدد کیا گیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی جو بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کیساتھ کئے جانے والے سلوک پر شدید تنقید کا باعث بنی۔