محفل میں سب بے پناہ غم واندوہ کے عالم میں بھی اس کے اس قدر ساتر اور باپردہ لباس میں ملبوس ہونے پر حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ عزیز از جان بیٹا رخصت ہو رہاہے اور اسے اپنے حجاب کی پڑی ہوئی ہے۔ کسی نے اس پر تعجب کیا تو اس نے نمناک آنکھوں اور بھیگے لہجے میں جواب دیا میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے، اپنی حیا تو نہیں کھوئی۔ گزشتہ دنوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اْمت اْن کی اس صحابیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس حالت میں 4ستمبر کا عالمی یوم حجاب منایا کہ اس اْمت کی کچھ بیٹیاں پانی کے سیلاب میں اپنے حجاب اور زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور کچھ مغربی تہذیب کے سیلاب میں حجاب کا تحفظ کررہی ہیں۔
موجودہ دور میں عالمی استعماری طاقتوں نے اْمت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدف بنایا ہواہے۔ قرآن کریم، ناموس رسالت،حجاب اورہمارا خاندان کا ادارہ ان کے خصوصی اہداف ہیں۔ ہر جگہ پر ان شعائر اسلام کو انتہا پسندی،قدامت پرستی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑ ا جا رہاہے۔ مختلف ممالک میں اس کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے۔ اْمت مسلمہ بالعموم اور ان ممالک میں رہنے والے مسلمان بالخصوص ان متعصب رویوں اور امتیازی قوانین کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہیں۔
عالمی یوم حجاب 4ستمبر کو کیوں منایا جاتاہے؟ یہ سوال عام طور پر ذہنوں میں اٹھتاہے؟ تو اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 11ستمبر کے بعد کی دنیا میں مغربی ذرائع ابلاغ نے جہاں اسلام کے خلاف کھل کر صف آرائی کی، وہیں شعائر اسلام اور خاص طور پر حجاب کے خلاف اْن کا تعصب بڑھتا چلا گیا اور مسلم معاشرے میں حجاب کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ذرائع ابلاغ کا فی خوف زدہ نظر آنے لگے۔ حجاب کے خلاف اس بڑھتی ہوئی مہم کے پیش عالم اسلام کے ممتاز راہنماؤں نے لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی جس میں دنیا بھر کے تقریباً300مندوبین نے شرکت کی۔لندن کے مئیر لونگ اسٹون اس کے میزبان بنے۔ چونکہ 2ستمبر2003ء کو فرانس میں ہیڈ اسکارف پر پابندی کا قانون اسمبلی میں پیش ہواتھا اور اس بات پر مسلمانوں کے اندر بہت غم و غصہ پایا جاتا رہاتھا اس لئے اس کے جواب میں 4ستمبر2004ء سے عالمی یوم حجاب کا اعلان کیاگیا اور اْس دن سے پہلی مرتبہ پوری دنیا میں 4ستمبر کو حجاب کے تحفظ کے عزم نو کے طور پر منایا جاتاہے۔
معاشرے میں حیا کے چلن کو عام کرنے، گھر اور خاندان کے نظام کو پاکیزہ اور مستحکم کرنے اور اخلاق وکردار کو آراستہ کرنے کے لئے اللہ رب العالمین نے اپنی آخری آسمانی ہدایت قرآن کریم میں واضح طور پر انسانوں کو حجاب پر مبنی نظام معاشرت بنانے کی ہدایت کی اور اس کے اولین مخاطب مرد تھے اوراس کے بعد عورتوں کو نصیحت کی کہ!
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتاہے۔ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں پھیلائیں رکھیں (النور 31,30:24)
ہمارے معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ حجاب کا حکم صرف عورتوں کے لیے ہے مگر اللہ رب العلمین نے مردوں کو بھی اس کا پابند بنایاہے کہ وہ معاشرہ میں مضبوط اخلاقی نظام کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حجاب محض ڈیڑھ گز کپڑے کے ٹکڑے کو سرپر لپیٹ لینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا اخلاقی نظام ہے جو ہماری پوری زندگی کااحاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ اسلام کا نظام عفت و عصمت ہے جو معاشرے کو پاکیزگی عطا کرتاہے۔ عورت کو توقیر بخشتاہے۔ خاندانوں کو مضبوط اور مستحکم کرکے مضبوط معاشرے کی بنیادیں فراہم کرتاہے۔
ہمارے قومی شاعرعلامہ اقبال حجاب کی مصلحتوں کے بارے میں جاوید نامہ میں فرماتے ہیں کہ!
”اے کہ دور حاضر نے تیرے دینی جذبے کی گرمی کو سرد کردیا ہے۔ آؤ میں تمہیں حجاب کی مصلحتوں کو کھول کر بتاتاہوں۔ ذوق تخلیق کی آگ انسانی جسم میں سلگ رہی ہے۔ اسی ذوق تخلیق کی آتش سے انسانی معاشرہ فروغ پا رہاہے۔ جس کوبھی اس آتش کا کچھ حصہ ملا ہے۔ وہ اپنے اندر کے سوز و ساز کی گرمی سے ایک کش مکش میں مبتلا ہوجاتاہے۔ ہر وقت وہ اپنے تخلیق شدہ نقش کی نگرانی کرتاہے تاکہ کوئی اور اس کے نقش پر اثر انداز نہ ہو۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے غار ِحرامیں خلوت اختیار کی اور اْمت مسلمہ کا نقش اْن کے دل میں راسخ کردیاگیا۔ اْن کی خلوت سے ایک قوم پیدا کردی گئی۔ کم آمیزی سے فکر و تخیل میں زندگی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں اور انسان زیادہ بیدار،زیادہ جستجو کرنے والا اور زیادہ حاصل کرنے والا بن جاتاہے۔ آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو اور تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی زحمت میں نہ ڈالو۔ اس لئے کہ ہرتخلیق کی حفاظت کے لئے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتاہے۔“
سیلاب کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالیں اور علامہ اقبالؒ کی اس نظم پر غور کریں تو پاکستانی عورت ہمیں فطرت کے برپا کردہ اس ہنگامے میں بھی اپنے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے کیمپ ہوں یا پنجاب کے، سندھ ہو یا بلوچستان یا آزاد کشمیر۔ عورت اپنی حیا کے تحفظ کی جنگ بھی لڑ رہی ہے اور اپنی اور اپنے بچوں کی بقا اور زندگی کے لئے بھی ہر مشکل کو انگیز کر رہی ہے۔ نوشہرہ موٹروے پر ایک عورت کو دیکھاکہ وہ اپنے بچوں کے لئے سخت پریشان تھی کہ ”مجھے سڑک سے کہیں دور خیمہ دے دیں۔ میں بھوکی رہ لوں گی مگر میرے بچے کہیں سڑک پر کسی گاڑی کی زد میں نہ آجائیں“۔ ہمیں کسی نے کہاکہ آپ اپنے کاموں کو کیوں میڈیا میں نہیں اْجاگر کررہیں۔ میں نے اْنہیں جواب دیا کہ ہم جب سونامی کے طوفان میں ریلیف کے لئے آچے انڈونیشیا میں تھے تو ہم نے ایک دن اپنی افواج کے ساتھ ریلیف کے کام میں گزارا۔ میں نے وہاں کے انچارج سے کہاکہ بھائی آپ نے میڈیا میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے کوئی پلاننگ نہیں کی۔ اتنا کام کررہے ہیں مگر کسی کو خبر نہیں۔“اْنہوں نے مجھے بہت پیار اجواب دیا کہ ”بہن یہاں ہمارا نام نہیں ہمارا کام بولتا ہے“اور واقعی جہاں آپ کا کام بو ل رہاہو وہاں آپ کو نام کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے اس دفعہ 4ستمبر پورے پاکستان میں یوم حجاب سیلاب سے تباہ حال خواتین کے ساتھ گزارا ہے۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی اور الخدمت کے تعاون سے ہم نے مختلف کیمپوں میں حجاب،دوپٹے، چادریں اور خواتین کی ذاتی ضروریات کی اشیا دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ فراہم کیں۔ سیلاب میں بھی آپ کو پاکستانی قوم کے حیا پر مبنی نظام کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جہاں ہر جگہ خواتین کے پردے اور حیا کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ کوئی میڈیا کا فرد ایسی تصویر یا منظر نہیں دکھا رہا جس سے حیا کی صفت مجروح ہو رہی ہو۔ ہر مرد اپنی خواتین کا محافظ بنا ہوا ہے۔ ہمارے لوگ اپنے ساتھ چادریں رکھے ہوئے ہوتے ہیں جس سے وہ ہر عورت کا تحفظ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔آئیے اپنے رب کے دامن رحمت میں استغفار اور توبہ کے ساتھ پلٹیں کہ جو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا رب ہے کہ وہ اس بڑی آزمائش سے ہمیں عافیت اور نجات عطاکردے۔ ہم پر رحم کردے۔ رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین۔