میں اپنے گزشتہ کالم ”انصاف کے متلاشی رینکرز پولیس افسران“میں لوگوں کی ناانصافیوں پر یہ عرض کررہاتھا”اللہ کویقین تھا دنیامیں بندے ایک دوسرے کو انصاف فراہم نہیں کرسکیں گے۔ چنانچہ اللہ نے روز محشر اپنا ایک ”یوم انصاف“ مقرر کیا، اللہ کو اگر یقین ہوتا دنیا میں اس کے بندے ہرمعاملے میں ایک دوسرے سے انصاف کریں گے، اللہ کو اپنے”یوم انصاف“ کی شاید ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، سو جس کسی کو دنیا میں انصاف نہیں ملتا وہ اِس یقین کے ساتھ صبر شکرکرکے بیٹھ جاتا ہے روز حشر اُسے انصاف ضرور ملے گا۔ ہماری جھوٹی اور چھوٹی چھوٹی انائیں لوگوں یا ماتحتوں کو انصاف فراہم کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، یہ ہمارا ”مائینڈ سیٹ“ نہ ہوتا تو رینکرز پولیس افسران کو اپنی جائز ترقی کے لیے جنگ لڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، میں نے ترقی کے لیے اُن کے مطالبے کا بغور جائزہ لیا مجھے ان کے مطالبے میں بڑی جان محسوس ہوئی، …… میں نے سوچا، میری اب جب بھی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی میں اُن کی توجہ اِس جانب مبذول کرواؤں گا کہ جس طرح آپ نے تعلیمی اداروں میں ”یکساں نصاب“ کی پالیسی متعارف کروائی ہے، یا اُس کی منظوری دی ہے، اُس پر عملد درآمد اگر ہوگیا ظاہر ہے اُس کے مثبت نتائج ہی نکلیں گے، اُسی طرح اِس ملک کے ہرچھوٹے بڑے سرکاری افسر یا ملازم کے لیے ترقی کا ایک ”یکساں نظام“ متعارف کروایا جانا چاہیے، اور پھر اُس پر عمل درآمد بھی ہو، کیونکہ اصل کام پالیسی بنانا نہیں، اُس پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے…… یکساں نصاب کے حوالے سے لاہور میں جو تقریب منعقد ہوئی تھی اُس میں اُردو زبان کی اہمیت پر بھی وزیراعظم کُھل کُھلا کر بولے تھے، میں اُن کے اِس مؤقف سے سو فی صد اتفاق کرتا ہوں جب تک ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے لباس پر فخر نہیں کریں گے، اور اُسے اپنائیں گے نہیں، تب تک دنیا میں ہم بے شناخت ہی رہیں گے، …… کاش وزیراعظم پاکستان عمران خان اِس موقع پر سپریم کورٹ آفس پاکستان کو اُس کا ایک فیصلہ بھی یاد کروادیتے جو اُردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے حوالے سے تھا، المیہ یہ ہے، سرکار کی تو یہ روایت ہے وہ کبھی یا اکثر عدالتی فیصلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، یا صرف مطلب کے عدالتی فیصلوں کو ہی اہمیت دیتی ہے، دُکھ اِس بات کا ہے خود عدلیہ نے اِس فیصلے کو نظرانداز کررکھا ہے۔ اُس فیصلے کے مطابق سرکاری محکموں میں خط وکتابت اُردو میں شروع ہوسکی، نہ ہی عدلیہ میں شروع ہوسکی، …… ہمارا اصل مسئلہ یہی ہے یہاں باتیں بہت ہوتی ہیں کام نہیں ہوتے، یا کام صرف وہی ہوتے ہیں جن میں لوگوں یا حکمرانوں کی ذاتی دلچسپیاں ہوتی ہیں، …… اُسی طرح اپنے ملک کے انتظامی ڈھانچے کو، اگر سی ایس پی اور پی ایس پی کلاس کی ترقی کا ایک وقت مقرر ہے تو باقی ”کُوڑے کرکٹ“ کی ترقی کا بھی ایک وقت مقرر ہونا چاہیے، ”کوڑا کرکٹ“ میں نے اِس لیے کہا کہ ہمارے اکثر سی ایس پی اور پی ایس پی اپنے علاوہ باقی سب کو ”کوڑا کرکٹ“ ہی سمجھتے ہیں، ……کوئی لیکچرار، ڈاکٹر یا کسی اور شعبے کا کوئی افسر باقاعدہ ایک امتحانی پروسیس سے گزر کر سروس جائن کرتا ہے، اُس بے چارے کو اگلے گریڈ میں ترقی کے لیے بیس بیس، پچیس پچیس سال لگ جاتے ہیں، کچھ تو ایسے بھی ہیں جس گریڈ میں سروس جائن کرتے ہیں اُسی میں ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں، جبکہ اُن کے مقابلے میں ”سی ایس پی اور پی ایس پی فرشتوں“ کی ترقی کی باقاعدہ ایک مدت مقرر ہے، جو زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سال کی ہوتی ہے، اُس کے بعد اُن کی اگلے گریڈ میں خودبخود ایک سسٹم کے تحت ترقی ہو جاتی ہے، اِن سی ایس پی اور پی ایس پی افسران کو سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے کہ صرف اُن ہی کی ترقیوں کی ایک جائز مدت مقرر ہو، اُن کے ماتحت ملازمین اُن سے کم محنت نہیں کرتے، یا اہلیت کے اعتبار سے اُن سے اتنے کم ترنہیں ہوتے اُنہیں ترقی کے قابل ہی نہ سمجھا جائے، …… یکساں نصاب کے بعد ترقی کے یکساں مواقعوں کے لیے محترم وزیراعظم عمران خان اگر کوئی نظام بنادیں،اور اس ضمن میں اعلیٰ بیوروکریٹس یعنی ”بابوؤں“ کے ناقص اور تعصب زدہ مشوروں کو اہمیت نہ دیں، یا اُنہیں خاطر میں نہ لائیں، تو اُن کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، مجھے یقین ہے اُس کے بعد اِس ملک کے انتظامی ڈھانچے میں ایسی جان پڑ جائے گی ہرشعبہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر ملک کی ترقی و عزت کا باعث بننے لگے گا۔ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ انصاف فراہم کرنے والے دیگر اداروں کو بھی اس اہم ایشو پر توجہ دینی چاہیے، اُنہیں بھی کوئی نوٹس یا ازخودنوٹس لے کرثابت کرنا چاہیے اللہ نے جو منصب اُنہیں سونپے ہیں وہ واقعی اُس کے اہل تھے، ……اب آتے ہیں اُن رینکرز پولیس افسران کے مسئلے کی جانب جس کے لیے اتنی لمبی چوڑی تمہید مجھے صرف کچھ اعلیٰ پولیس افسروں کو تھوڑی شرم دلانے کے لیے باندھنی پڑی، پہلے یہ مسئلہ صرف اُن چند رینکرز پولیس افسران نے اُٹھایا جنہیں اٹھارویں گریڈیعنی ایس پی کے بعد پروموشن نہیں ملتی۔ اُنہیں مجبوراً پی ایس پی کیڈر میں شامل ہونے کے بعد بطور ایس پی ہی ریٹائر ہونا پڑتا ہے چاہے اُن کی کتنی ہی سروس کیوں نہ باقی ہو۔ اگر اُن کی ترقی کا نظام درست کردیا جائے، جو کہ لازمی طورپر درست ہونا بھی چاہیے تو اپنی عمر یا سروس کے مطابق وہ بھی بطور ڈی آئی جی یا بطور آئی جی بھی ریٹائرڈ ہوسکتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے ان چند رینکرز پولیس افسران کے ساتھ ساتھ اپنی جائز ترقی کا مطالبہ لے کر بے شمار ایسے اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھی اِس جنگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ واٹس ایپ گروپس سے ملنے والی کچھ اطلاعات کے مطابق یہ تمام نِکے پولیس افسران 12ستمبر کو لاہور پریس کلب کے باہر اپنے حقوق کے لیے باوردی احتجاج کریں گے۔ ظاہر ہے اِس سے حکومت کی مزید سُبکی ہوگی۔ ہمارے اعلیٰ پولیس افسران شاید چاہتے بھی یہی ہیں، …… ہم کچھ انتہائی بے مروت، طوطا چشم اور منافق اعلیٰ پولیس افسران کی خدمت میں صرف عرض ہی کرسکتے ہیں اِس آگ کو پھیلنے سے پہلے بُجھا لیں، ایک شعر بھی اُن کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔
روز پلتے ہوئے شعلے نہ بجھائے مگر
جب آگ پھیلی تو لوگ شہر بچانے نکلے
(جاری ہے)
انصاف دے……کہاں ہے؟!
11:10 AM, 7 Sep, 2021