استغفار

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

کافی مصروف دن گزارنا تھا۔ ہائی کورٹ میں جائیداد کا ایک پرانا مقدمہ پھر ایس پی آفس میں کریکٹر سرٹیفکیٹ اس کے علاوہ جمعہ کا دن کہ دفتروں میں کام بھی کوئی نہیں کرتا۔ جمعہ کے دن بھی چھٹی اور ہفتہ بھی تقریباً چھٹی ہی ہوا کرتی ہے۔ مگر مجھے اسی دن سب کرنا پڑ گیا۔ ڈاکٹر سے وقت لے رکھا تھا۔ صبح ہی صبح اٹھا گھر سے نکلااور میٹرو پولیٹن کی بس پر بیٹھ گیا۔ ایک روپے کا سکہ ڈالا اور تیسرا سٹاپ ہائی کورٹ تھا۔ میں عدالت میں گیا تو جج صاحب کے نام کی تختی تبدیل شدہ تھی۔ مسٹر جسٹس گولڈ سمتھ لکھا ہوا تھا میر ے مقدمہ کی آواز ہوئی اندر گیا تو جج صاحب نے میرے نام اور مقدمہ کی تصدیق کی اور پوچھا وکیل صاحب کدھر ہیں۔ میں ابھی خاموش تھا کہ وکیل صاحب کے کلرک  نے بتایا کہ وہ پریس کانفرنس میں ہیں۔ جج صاحب نے فائل دیکھی اور کہا کہ یہ 15 سال پرانا مقدمہ ہے۔ کارروائی بھی مکمل ہے۔ آپ جائیں اور وکیل صاحب کو بلائیں۔ ورنہ میں پرانہ ریکارڈدیکھ کر فیصلہ کردوں گا۔ آدھے گھنٹے بعد وکیل صاحب آ گئے۔ جج صاحب نے چند مقدمات کی سماعت کے بعد میرے مقدمہ کے متعلق کچھ سوال کیے اور سال ہا سال سے زیر التوا مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا۔ جو میرے حق میں تھا۔ مجھ سے کسی نے کوئی چائے مٹھائی نہ مانگی اور میں عدالت کی کنٹین میں چلا گیا۔ وہیں پر جمعہ کی اذان ہوئی صرف ایک اذان اس کے بعد خاموشی مجھے بتایا گیا کہ وزارت مذہبی امور نے ایک وقت میں ایک اذان کا فیصلہ کیا ہے جو محکمہ اوقاف کے دفتر میں دی جائے گی اور پورے شہر میں سنی جائے گی۔ مولوی صاحب کا خطبہ بھی مسجد سے باہر نہیں سنا جائے گا۔ آواز مسجد کی حدودکے اندر رہے گی اور قرآن و حدیث کے علاوہ کوئی بات نہیں ہو گی۔ میں نے استفسار کیا کب سے ایسا ہوا ہے بتایا گیا کہ آج پہلا جمعہ ہے۔ میں مسجد میں چلا گیا مولوی صاحب سادہ شلوار قمیص میں درس دے رہے تھے۔ جمعہ پڑھایا میں مسجد سے باہر آ گیا۔ سڑکیں صاف ستھری، ٹریفک زبردست،منظم طریقے سے چل رہی، صفائی 
ستھرائی کہ کیا بتاؤں۔ مجھے ایس پی آفس جانا تھا کیونکہ کینیڈا جانے کے لیے کریکٹر سرٹیفکیٹ درکار تھا۔ ایس پی آفس مجھے کوئی ایجنٹ نہ ملا تو میں نے پوچھا کہ کیا کروں ایک سپاہی نے بتایا کہ ایس پی گوئٹے بیٹھے ہیں کسی سفارش کی ضرورت نہیں۔آپ جائیں اور اپنا نام بتائیں کام بتائیں۔ ایس پی جوکہ شکل سے گورا تھا نے مجھ سے کام نام اور دیگر معلومات لیں سامنے کمپیوٹر میں میز، شناختی کارڈ نمبر ڈالا اور پرنٹر سے مجھے میرا کریکٹر سرٹیفکیٹ نکال دیا۔ خوشی کے ان تاثرات کے ساتھ کہ آپ پر کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ جی مجھے تو تھانے میں حاضری لگوانے کا حکم تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب پولیس تھانوں میں، دفاتر، سڑکوں اور دکانوں پر موجود اور مستعد ہو، فون کرنے پر حاضر ہو تو پھر عوام کو تھانے میں حاضری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جرائم والے علاقے میں پولیس والے تھانے میں بند ہونے چاہئیں۔ ایس پی صاحب کے الفاظ اردو مگر لہجہ انگریزی تھا۔ 
اب میں نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس چلتے ہیں ڈاکٹر صاحب سرکاری ہسپتال میں ہی دو بجے کے بعد جمعہ کے دن پرائیویٹ دیکھتے ہیں۔ میں تقریباً 3 بجے ہسپتال پہنچ گیا۔ ہسپتال صاف ستھرا، نرسیں مستعد اور ڈاکٹرز ٹی شرٹ اور ہلکے پھلکے لباس میں پھر رہے تھے۔ میں اپنے ڈاکٹر کے کمرے کے باہر گیا وہاں پر ان کے بجائے ڈاکٹر جانسن کا نام لکھا ہوا تھا، اندر سے مریض باہر آیا اس نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ میں اندر چلا گیا۔ ڈاکٹر جانسن نے مجھے چیک کیا میں نے کہا کہ ڈاکٹر محمدکبریا کاشف کدھر ہیں؟ وہ بولے میں نہیں جانتا۔ چیک اپ کیا تو میں نے پوچھا کہ پیسے آپ کو دے دوں اس نے بہت برا منایا کہ سرکاری ہسپتال میں پیسے کس بات کے؟میں نے کہا کہ آپ سے پہلے تو پیسے لیتے تھے جس پر اس نے حیرانی کا اظہار کیا اور کہا کہ ساتھ فارمیسی سے دوائی لے لینا میں سمجھا ڈاکٹر کے رشتہ دار کی ہو گی مگر اس پر شی پنگ انچارج تھا اس نے اپنے اسسٹنٹ کو نسخہ دیا اور اگلی مقررہ تاریخ تک کی دوا دے دی۔باہر نکل کر ہسپتال کا دوبارہ نام پڑھا تو شی پنگ ہسپتال لکھا تھا۔ میں بہت حیران پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے اتنے میں یک دم شور ہوا۔میری آنکھ کھل گئی شور ٹی وی کا تھا جورات لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند ہو گیا تھا اور مجھے سوئچ آف کرنا یاد نہ رہا۔  بڑی بوریت ہوئی ٹی وی تک آتے آتے دیکھا کہ وزیراعظم سابقہ حکومتوں کو بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں قوم اچھی نہیں ملی کا گلہ کر کے نیچے اشیائے خورنی کی قیمتوں، یوٹیلٹی بلز، پٹرول، ڈالر کی قیمتوں کے بڑھنے کے ٹیکرز چل رہے ہیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ملک اوپر جا رہا ہے۔ اسلام اور کلچر سے انگریزی نے دور رکھا۔ بابر پر فلم تمام مسائل کا حل ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سوچا کہ ایسا کہاں سے لاؤں جو سونے کو ملا دے جاگنے کے ساتھ۔
 اب دوبارہ نیند نہ آئے، باہر میرے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی میں نے سوچا کسی گاڑی کی روشنی پڑی ہو گی صبح پتہ چلا کہ گٹر کے ڈھکن غائب تھے اور رات کے کسی پہر میرے سامنے ہمسائے کو نیب والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ بہر حال عجیب و غریب کیفیت تھی۔ پہلے میں نے دوستوں سے ذکر کیا انہوں نے کہا شکر کرو چور تھے گٹر کے ڈھکن لے گئے ورنہ ڈاکو ہوتے تو جان بھی جاتی اب تو بھکاری بھی ڈاکو ہیں بلکہ ڈاکو راج ہے۔ میں نے قبلہ حضور! مقصود احمد بٹ صاحب سے رابطہ کیا کہ امیر صاحب یہ خواب آیا ہے وہ کہنے لگے آپ پریشان نہ ہوں دو رکعت نماز استغار کے پڑھیئے دراصل وزیراعظم جن جن ممالک کے نظام ہائے حکومت کا ذکر کرتے رہے ہیں جس تبدیلی اور ترقی کی بات کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں وہ آپ کے ذہن میں تھے اور ملک کے بڑے سرمایہ دار تجزیہ کار تجزیہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ آپ ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو گئے تھے۔ حکومتی دعوے، نعرے، وعدے اور کمرشل تجزیہ کاروں کے تجزیے آپ کے ذہن میں رہے۔ آپ کو عجیب بین الاقوامی سا خواب آیا ہے۔ آپ استغفار کریں۔ پوری قوم کو استغفار کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک کے پے در پے حکمران ایسے آئے ہیں کہ معاملہ شکر نہیں استغفار کا تھا میرا سوال وہی تھا کہ حضرت کوئی ہو گا جو خوابوں کو حقیقت میں بدلے وہ کہنے لگے کہ آپ ابھی استغفار کریں اللہ کریم فضل والا معاملہ کریں گے مواقع بھی عطا فرمائے گا۔