روز بروز انڈیا میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کی وجہ سے انڈیا خواتین کے لیے غیر محفوظ بنتا چلا جا رہا ہے اور انڈیا اب دُنیا کا دوسرا بڑا ریپسٹ ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس وقت انڈیا میں عام عورت سے لے کر پولیس آفیسرز تک کی خواتین اور اس کے علاوہ دوسرے محکموں میں بھی کام کرنے والی خواتین بھی غیرمحفوظ ہیں،مگر بدقسمتی دیکھیے اُن کا میڈیا اس پر کوئی خبر نہیں دیتا لیکن اس کے برعکس اگر پاکستان میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارا میڈیا اُس خبر کی جان نہیں چھوڑتا جب تک مُلزم نہ پکڑا جائے۔مگر انڈین میڈیا ہمارے ملک کی ایک چھوٹی سی خبر کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے مگر اپنے ملک کی کوئی بھی خبر نہیں دیتا اور ظاہر یہ کرتا ہے کہ جیسے انڈیا سے اچھا کوئی ملک نہیں جبکہ انڈیا عالمی ریپسٹ کے ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔مگر پاکستان کا نام 90ملکوں کے بعد میں آتا ہے۔
میں اپنے اس کالم میں آپ کو اہم واقعہ بتانا چاہتی ہوں جو چند روز پہلے پیش آیا۔انڈیا کے اندر 21سالہ صبیحہ سیفی جو کہ مسلم لڑکی تھی اور 4 ماہ پہلے نئی دہلی پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوئی تھی۔27اگست کے دن کو وہ ڈیوٹی سے واپس اپنے گھر نہ پہنچ سکی۔2ستمبر کو اُس کی باڈی ملی جس کے ٹکڑے کیے ہوئے تھے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اُسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھارت میں پہلا کیس نہیں، انڈیا میں ایسے کیسز ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔بھارتی حکومت اور انڈیا کی اپنی رپورٹس کے مطابق ہر 15منٹ کے بعدبھارت میں کہیں نہ کہیں ایک لڑکی یا عورت ریپ کا شکار ہورہی ہے۔جبکہ بھارت کی ایسی کوئی بھی ریاست نہیں ہے جہاں خواتین محفوظ ہوں۔میں آپ کو تھوڑا پیچھے 2019میں لیے چلتی ہوں جب بھارتی سپریم کورٹ نے نیشنل کرائم رپورٹ بیورو سے انڈیا میں ہونے والے ریپ پرجب رپورٹ مانگی اور کہا کہ بھارت میں ہونے والے ریپ کیسز کی رپورٹ تفیصل سے دی جائے۔
نیشنل کرائم رپورٹ بیورو نے رپورٹ جو کہ 2019 میں پیش کی گئی اُس رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور ریپ کے صرف دہلی میں واقعات جو پیش آئے ان میں سے 12ہزار 902کیسز رپورٹ ہوئے۔ ممبئی 6ہزار 519کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ راجستھان میں 1500،جے پور میں 900اور باقی جو انڈیا کے شہر ہیں اُن میں لگ بھگ 60ہزار ریپ کیسز رپورٹ ہوئے۔جب اُنہوں نے اعداد و شمار اور ڈیٹا کی بنیاد پر پرسنٹیج نکالی تو انڈیا میں یومیہ 90خواتین ریپ کا شکار ہو رہی تھی،یعنی ہر 15 منٹ کے بعد انڈیا میں ایک عورت کے ساتھ ریپ ہو رہا تھا۔
انڈیا میں اس رپورٹ کے مطابق جو 2019میں پیش کی گئی ہر15منٹ کے بعد ایک خاتون یا کم سن بچی ریپ کا شکار ہورہی ہے۔ تقریباً ساٹھ ہزار کم سن بچیاں یا خواتین تھیں جن کے ریپ کیس رپورٹ ہوئے۔انڈیا میں جو ریپسٹ سٹی ہیں اُن میں دہلی نمبر ون پہ ہے،سکینڈ نمبر پر ممبئی، پھر راجستھان اور اُتر پردیش یہ ایسے شہر ہیں جہاں پر سب سے زیادہ ریپ کیس ہوتے ہیں۔
مگر اس سب کے باوجود ان کا میڈیا کسی طرح کی کوئی رپورٹ پیش نہیں کرتا۔اور جو پاکستان میں کبھی کوئی ایسا واقع ہو جاتا ہے تو نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ سول سوسائٹی بھی اُس واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔میں یہاں پر اپنے قارئین کو اہم بات بتاتی چلوں کہ چند ہفتے پہلے ایک کینیڈین خاتون نے پورا پاکستان موٹر سائیکل پر گھوما اور وہ جس جگہ پر بھی گئی اُس کو عزت اور احترام سے دیکھا گیا تو اُس عورت کے الفاظ تھے کی پاکستان ایک عورتوں کیلئے ایک محفوظ ملک ہے میں نے پاکستان سے بہتر ایسا ملک کوئی نہیں دیکھا جہاں خواتین کو اتنا عزت یا احترام ملتا ہو۔
مگر بد قسمتی سے ہمارے کچھ لفافہ صحافی اور اینکرز پاکستان میں ہونے والے واقعات کو ایسے بریکنگ نیوز بنا لیتے ہیں کہ جیسے پاکستان سے برا ملک کوئی نہیں۔آپ پاکستان میں ہونے والے کیسز اُٹھا کے دیکھ لیں چاہے وہ زینب کیس ہو،چاہے وہ موٹر وے کیس ہو،اُن کیس کے ملزمان کو پاکستان کی پولیس نے نہ صرف پکڑا بلکہ اُن کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
اب انڈیا کی NCRB کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں 2019 کی نسبت ریپ کیسز کی تعداد میں 12 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم 2020کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو پھر 70ہزار کیسز بنتے ہیں جو کہ رپورٹ ہوئے۔اور جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے اُن کی تعداد الگ ہے ہو سکتا ہے کہ اُن کی تعداد زیادہ ہو۔اب انڈیا کو چاہیے کہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ بند کرے اور اپنے ملک کی خواتین کو تحفظ دے اُن کے حقوق پورے کرے نہ کہ ہر وقت اپنے میڈیا پہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتا رہے۔