ایک پیرصاحب اپنے چہیتے مریدوں کے سامنے بڑی رطب للسانی سے اپنی کرامت کا ذکر فرما رہے تھے کہ ایک دفعہ میں تن تنہا بے خوفی کو ہم رکاب کیے ہوئے صحرا میں جا رہا تھا چلتے چلتے دو دن گزر گئے تھے۔جب کبھی بھی بھوک لگتی تو ہاتھ بڑھا کرآسمان پر اڑتا ہوا کوئی پرندہ پکڑ لیتا اور سورج کی روشنی پر بھون کر خوب سیر ہو کر کھاتا اور خدا کا شکر ادا کر کے آگے چل پڑتا۔ نماز کا خیال آیا تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک جھاڑی دیکھی اس کے پاس جا کر زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکل آیا میں پینے لگا تو خیال آیا کہ یہ جھاڑی پیاسی ہے پہلے اسے پانی پلاوں۔ چلو بھر پانی(وہی جو ناک ڈبونے کے لیے کافی ہوتا ہے) اس کی جڑ میں ڈالا تو وہ درخت بن گئی۔ اس کے سائے میں نماز ادا کرنے کا سوچا وضو کے لیے چلو میں پانی لیکر کلی کی تو جہاں جہاں پانی گرا گلاب کے پھول کھل گئے۔
چہرے پر پانی ڈالا تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے کے بجائے ہر قطرہ ایک کالے رنگ کا طوطا بن کر درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا اور میرے مریدوں کے لیے دعا کرنے لگا۔
مرید جو جھوم جھوم کر سن رہے تھے ان میں سے ایک مرید بولا
پیر صاحب کالے رنگ کا طوطا۔؟؟یہ طوطے کب سے پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ہم نے تو فقط کالے رنگ کے کوے دیکھے ہیں؟
پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا تو ساتھ بیٹھے دوسرے شخص نے کہا:
چپ کر اوئے یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہے ہیں، جو تجھے کالے طوطے پہ شک ہے۔۔۔عمران خان جب وزیر اعظم نہیں تھے تو پی ٹی آئی کے تمام مریدین خان صاحب کی کرامتوں کا ذکر کر کر کے زمین اور آسمان کے درمیانی فاصلے کو یکسر ختم کر دیتے تھے اور خان صاحب کی ایمانداری کی تسبیح پر تسبیح جاری تھی۔ان مریدین کو دنیا بھر میں صرف خان صاحب ہی صادق و امین نظر آتے تھے۔یہ لوگ تو ایک طرف سوشل میڈیا سے لیکر تمام چینلز بھی خان صاحب کی
حمایت کے راگ الاپنے لگے تھے۔خان صاحب خود غریب عوام کی ہمدردی کاعلم بلند کرتے تھے اور ملک کے سچے اور سْچے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔خان صاحب نے خود ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جو وزیراعظم بجلی،گیس اور پیٹرول مہنگا کرے وہ چور ہے۔خان صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب میں برسرِاقتدار آیا تو چوروں سے ایک ایک پائی وصول کروں گا؟مہنگائی کو کنٹرول کروں گا؟آئی ایم ایف کا قرضہ منہ پر دے ماروں گا؟قرضے کا کشکول توڑ دوں گا؟عوام کا پیسہ عوام پر لگاؤں گا؟عوام کا دیا ہوا ٹیکس عوام پر لگے گا؟ملازمین کو ریلیف ملے گا؟میں عرض کرتا چلوں اور آپ احباب کے گوش گزار کرتا چلوں؟ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تنخواہ آنے سے پہلے ملازمین کا انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے بلکہ بڑی صفائی اور ایمانداری سے کاٹ لیا جاتا ہے۔تنخواہ بینک کے سپرد ہوجاتی ہے۔ لائن میں لگ کر یا اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے پر ”ود ہولڈنگ ٹیکس“ کاٹ لیا جاتا ہے۔بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کیا۔۔۔۔اب تنخواہ خرچ کرنے کی باری آتی آتی ہے۔جیسے ایک عاشق اپنے محبوب کے نقش پا کو پاکر محبوب کی تلاش میں سر گرداں ہو کر آبلہ پا ہو جاتا ہے اور شام ہوتے ہی آبلے گن کر یہ سوچتا ہے کہ آج شام کے بعد کون باعثِ آغاز سفر ہوا ہے؟اسی طرح تنخواہ دار تنخواہ خرچ کرتا جاتا ہے اور سیلز ٹیکس ادا کرتا جاتا ہے۔نائی کے بلیڈ سے لیکر تائی کے چالیسویں کے ختم پر خریدی گئی تمام اشیاء پر سیل ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پورے عوام سیل ٹیکس کے اس کڑے عمل سے گزرتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمع شدہ ٹیکس سے عوام کی زندگیاں بہتر کیوں نہیں ہو رہیں؟ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟
سٹرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہیں؟ ادارے تباہ کیوں ہیں؟کرپشن کیوں ہے؟لوٹ مار کیوں ہے؟چور بازاری کیوں ہے؟مافیاز کنٹرول میں کیوں نہیں ہے؟ہوا کیا ہے؟خرابی کہاں ہے؟برائی کس جگہ ہے؟یہ برائی اور خرابی حکومتی نمائندوں سے لیکر من حیث القوم ہمارے ضمیر میں ہے۔یہ خرابی اور برائی ہماری نیتوں میں ہے۔ہم منافق ہو چکے ہیں۔ہم مذہب کو صرف اپنی ضرورت اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگ پڑے ہیں۔ہمارے رویوں میں مادیت پرستی سرایت کر چکی ہے۔ہمارے تھانے رشوت کا گڑھ ہیں۔مگر وہاں لکھا ہوتا ہے”رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں“ہمارے کچہریوں میں 500 روپے میں گواہ مل جاتا ہے مگر وہاں لکھا وہاں لکھا ہوتا ہے”شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ جھوٹی گواہی ہے“۔ہماری عدالتوں میں انصاف نیلام ہو رہا ہوتا ہے مگر وہاں لکھا ہوا ہوتا ہے”لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو“۔ہماری درسگاہیں علم اور جہالت بیچ رہی ہوتی ہیں اور وہاں لکھا ہوا ہوتا ہے”علم حاصل کرو ماں کی گود سے لیکر قبر کی گود تک“۔ہمارے ڈاکٹرز پرائیویٹ ہسپتال میں لاکھوں روپے لوٹنے میں پوری طرح مصروف ہوتے ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے۔”اور جس نے ایک زندگی بچائی اس نے گویا پوری انسانیت پر احسان کیا“۔ہمارے بازار جھوٹ،خیانت،ملاوٹ اور فریب کے اڈے ہیں۔مگر وہاں پوری ایمانداری سے لکھا ہوتا ہے”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔یہ جو ہم زیب قرطاس کرتے ہیں یہ ہمارا عقیدہ ہے اور جو ہم کرتے ہیں یہ ہمارا عمل ہے جب عمل عقیدے کیخلاف ہو جائے تو اسی عمل کو منافقت کہتے ہیں۔یہی منافقت ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب سسٹم بہتر کیسے ہوگا اور ہم بحیثیتِ قوم انسانیت کے مرتبے پر کب فائز ہونگے؟ہمارا ضمیر کیسے جاگے گا؟ہمارے اندر مذہب کی روشنی کب اور کیسے بیدار ہو گی؟ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ اپنے رائے دہندگی کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔۔پارٹی ازم سے باہر نکلا جائے۔برادری ازم کو چھوڑ درست نمائندے کا انتخاب کیا جائے۔حق اور سچ کی پہچان کی جائے۔ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے۔جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہو۔انکی ترجیحات میں عوام اور اسکی مشکلات و مسائل ہوں۔جس کی دسترس میں عوام کے مسائل کا حل ہو…… اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو یہی پیر ہونگے اور ان کے مرید طوطا سیاہ ہونے پر بھی واہ واہ کرتے رہیں گے اور سائنسی بنیادوں کا ان کے ساتھ کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور ہنوز دلی دور است والی بات ہو گی۔