انقرہ: برسوں پرانی دشمنی اور باہمی عدم اعتماد کے بعد ترکی اور پڑوسی عرب ممالک نے اختلافات کو ختم کرنے کیلئے ایک بار پھر سر جوڑ لیے ۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق ترکی اور مصر کے درمیان نائب وزیر خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور آج ہو گا ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2013 کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان یہ پہلی براہ راست اعلیٰ سطحی بات چیت ہونے جا رہی ہے ۔
یہ رابطہ ترکی اور عرب ریاستوں کے درمیان تازہ ترین ہے جو 2011 کی عرب سپرنگ کے نتیجے میں ختم ہو گیا تھا ۔ عرب سپرنگ نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں حکومت مخالف تحریکوں کو ہوا دی جس کے باعث ان ممالک میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے حکمرانوں کو دستبردار ہونا پڑا بلکہ اس تحریک نے دوسرے حکمرانوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجائی ۔
واضح رہے کہ عرب سپرنگ کے شروع ہوتے ہی ترکی ، جو اخوان المسلمون کے قریبی گروہوں کی حمایت کرتا تھا ، نے خطے میں ایک اہم کردار پر قبضہ کرنے کا موقع دیکھا اور عرب حکومتوں پر عوامی احتجاج کے دوران اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالا ۔
اس کے بجائے ، ان میں سے بہت سے جنہوں نے اس کی حمایت کی انھیں دھچکا لگا اور انقرہ نے خود کو الگ تھلگ کرلیا ۔
مصر کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ترکی کے مضبوط حریف بن کر ابھرے کیونکہ دونوں نے اخوان المسلمون کو اپنے حکمران خاندانوں کے لیے خطرہ سمجھا ۔
اس کے بعد استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب اور ترکی کے درمیان اختلافات کو اُس وقت مزید بڑھایا جب ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر اس قتل کے حوالے پر انگلی اٹھائی ۔