قومی معیشت کی بحالی کا عمل جاری ہے ریاست پاکستان بڑی یکسوئی کے ساتھ ایسے معاملات طے کر رہی ہے جو معاشی بحالی کے لئے ضروری ہیں ان اقدامات سے کم از کم منفی تاثر میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے کچھ عرصہ پہلے تو کہا جا رہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر گیا ہے اب صرف اعلان ہونا باقی ہے ویسے یہ بات کسی نہ کسی حد تک درست بھی لگتی تھی ففتھ جنریشن وار میں شامل پاکستان کے دشمنوں نے یہ تاثر نہ صرف پیدا کر دیا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر قائم نہیں رہ سکتا ہے میڈیا میں ہر روز ایسی ہی باتیں ہو رہی تھیں کہ بس بات ختم ہو گئی ہے پاکستان ایک ایک ڈالر کے لئے ترس رہا تھا درآمدی بل کی ادائیگی کے لئے زر مبادلہ نہیں تھا۔ درآمد شدہ مال سے بھرے کنٹینر پورٹ پر دھرے کے دھرے ہوئے تھے کیونکہ ان کے کسٹمز کی ادائیگی کے لئے رقوم دستیاب نہیں تھیں ملک میں ایک مایوسی ناکامی اور نامرادی کی فضا قائم تھی۔ مٹی کے واقعات نے ریاست کی کمزوری اور بے بسی کے تاثر کو عیاں کر دیا تھا۔
پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے کچھ کیا یا نہیں، اچھائی زیادہ کی یا عوامی مشکلات میں اضافہ زیادہ کیا اس بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ پی ٹی آئی کی 44 ماہی حکومت کے دوران پاکستان سفارتی و معاشی سطح پر جس بدنظمی کا شکار ہوا تھا اتحادی حکومت نے ملک کو اس گرداب سے نکالا سب سے اہم بات روٹھے ہوئے آئی ایم ایف کو منانا ہے۔ پی ٹی آئی نے معاہدہ کر کے معاہدے کی شقوں کے بر عکس پالیسیاں بناکر معاملات میں بگاڑ پیدا کیا۔ سفارتی سطح پر بچگانہ حرکات کے ذر یعے سعودی عرب، یو اے ای، ترکی اور ایسے ہی دوست ممالک کو ناراض کر کے پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کر دیا تھا اتحادی حکومت نے جیسے کیسے بھی کیا، پاکستان کو ڈیفالٹ کے عذاب سے نجات دلائی۔ عالمی اداروں کے ساتھ معاملات بہتر بنائے اور ملک کو سفارتی تنہائی سے نجات دلائی۔
ایسی کاوشوں کے نتیجے میں عوامی معیشت کا جنازہ نکل گیا۔ ڈالر کی مانگ میں اضافے اور سمگلنگ کے نتیجے میں اس کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہونے لگا ہنڈی اور حوالہ فروغ پانے لگا۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کے رجحانات نے فروغ پانا شروع کیا ڈالر کی قدر میں اضافے سے ہمارے روپے کی بے توقیری کا ایک ایسا عمل شروع ہوا جس نے عوامی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایات بلکہ احکامات کے مطابق بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی مہنگائی کو پَر لگ گئے۔ بے روزگاری پہلے بھی عام تھی ذرائع آمدنی کم تھے صنعتی ترقی کا پہیہ رکا ہوا تھا ایسے میں توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ جان لیوا ثابت
ہونے لگا۔ قومی معیشت کو ڈیفالٹ سے بچا لینا ایک اچھا اقدام تھا لیکن عوامی معیشت کی بے توقیری نے معاملات دگرگوں کر دیئے تھے۔
ایسے میں ریاست پاکستان نے معاملات کو درست سمت میں لیجانے اور آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ سرمایہ کاری کے ذریعے، جامد معیشت کا پہیہ رواں کرنے کا فیصلہ ہوا لوکل سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لیا گیا۔ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے لئے درخواست کی گئی اس طرح ناکامی اور نامرادی کے تاثر کو ختم کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔
سب سے اہم بات ڈالر کی اڑان پر قابو پانا ہے۔ ریاست پاکستان نے عزم بالجزم کے ساتھ ڈالر کے پَر کاٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ حوالہ ہنڈی کے کاروبار پر ہاتھ ڈالا۔ آہنی ہاتھ کے ساتھ لوکل مارکیٹ میں بیٹھے ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کی منظم کاوشیں کی گئیں اور سب سے اہم افغان بارڈر سیل کئے گئے تاکہ نہ صرف ڈالر بلکہ اشیاء و اجناس کی سمگلنگ بھی روکی جا سکے اس عمل کے جادوئی اثرات مرتب ہوئے ڈالر کی اڑان رک گئی ہے دن بدن، لمحہ بہ لمحہ ڈالر کی قدر میں کمی آ رہی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی اصل قیمت 250 روپے یا اس کے قریب ہے اطلاعات ہیں کہ ریاستی احکامات و اقدامات کے مطابق ڈالر 30 نومبر تک 250 روپے تک آ جائے گا۔ ریاستی اقدامات کا نتیجہ جو سامنے آ چکا ہے وہ زرمبادلہ کے بڑھے ہوئے ذخائر ہیں اس وقت پاکستان کے پاس 13 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر جمع ہیں یہ ایک انتہائی مناسب اور امید افزا بات ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب تاثر یہ بن رہا ہے کہ ڈالر 250 تک آ جائے گا، پٹرولیم کی قیمتیں بھی کم ہونے لگی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ 15 اکتوبر کو پٹرول کی قیمت میں 20 روپے فی لٹر تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک مثبت تاثر ہے۔ ریاست کے عزم بالجزم اور سوچے سمجھے اقدامات کے باعث معاملات میں بہتری کا تاثر پیدا ہونے لگا ہے مہنگائی کا سلسلہ تو شاید اتنی جلدی نہ رک سکے لیکن عوامی مشکلات میں اضافے کی رفتار یقینا کم ہو گئی ہے۔ ریاست نے جو ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے وہ ہمارے دیگر انتظامی معاملات میں بھی بہتری کا سبب بنے گا، وہ ہے غیرقانونی افغان مہاجرین کا انخلاء اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا تدارک غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین و دیگر غیر ملکیوں کو پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے اس کے بعد انہیں پکڑ کر زبردستی نکالا جائے گا۔ یہ حکم سارے غیر قانونی غیرملکی شہریوں کے لئے ہے لیکن کیونکہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ افغان شہری ہی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اس لئے اس حکم کی زد میں وہی آ رہے ہیں یہ مسئلہ 1979 میں افعانستان پر اشتراکی قبضے کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا اس دور میں پاکستان نے 60 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو یہاں پناہ دی۔ افغان مجاہدین کی ساری قیادت بھی یہاں پر قیام پزیر تھی پاکستان کی ریاستی پالیسی کے تحت افغاق جنگ آزادی میں پاکستان براہ راست شریک رہا۔ پھر اشتراکی افواج کی واپسی کے بعد مجاہدین گروپوں میں جنگ شروع ہو گئی، طالبان آ گئے 2001 میں امریکی اتحادی افواج افغانستان پر حملہ آور ہو گئیں اس طرح مہاجرین کا مسئلہ حل نہ ہو سکا، اب جبکہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور وہ مستحکم بھی ہو رہی ہے تو ایسے میں پاکستان کا افغان باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم درست ہے انہیں اب اپنے وطن واپس جا کر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے دوسری طرف پاکستان نے افغانستان کو جو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت دے رکھی ہے وہ پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس ٹریڈ سہولت کو ناجائز طور پر سمگلنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اس کی آڑ میں افغانستان کئی ایسی اشیاء امپورٹ کر رہا ہے جن کی وہاں ضرورت ہی نہیں مثلاً افغانستان میں کالی چائے، سلک کے کپڑے اور ایسا خام مال جو وہاں استعمال ہی نہیں ہوتا، درآمد کیا جا رہا ہے دراصل یہ سب کچھ پاکستان میں سمگل ہوتا ہے جس سے ہمارے خزانے کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے بھی سخت پالیسی اختیار کر لی ہے اس طرح کے اقدامات سے پاکستان کی نہ صرف معیشت بلکہ امن عامہ پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔