50 سال کے بعد کی دنیا کیسی ہو گی؟"
ٹیچر نے میری پوری کلاس کو اس موضوع مضمون لکھنے کےلئے دیا تھا، لیکن چیکنکگ کے دوران انہوں نے میری ساتھ بیٹھی طالبہ کو پیار بھرے انداز میں ڈانٹا کہ یہ مضمون دوبارہ لکھیں، آپ نے انگلش تو اچھی لکھی ہے،لیکن اس میں کوئی ربط ہی نہیں ہے اور خیالات بھی بکھرے ہوئے ہیں، لگتا ہے کہ جیسے آپ نے خود نہیں لکھا بلکہ کسی سافٹ ویئر نے لکھ مارا ہے۔
یہ مکالمہ سن کر کلاس میں چند لڑکیاں کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہی تھیں۔ یقیناً ٹیچر بھی جانتی تھیں کہ اس اسٹوڈنٹ نے مضمون لکھنے کے لئے کسی سافٹ ویئر کی مدد لی ہے، تاہم اوور اسمارٹ لڑکیاں جانتی تھیں کہ یہ مضمون آرٹیفشل انٹلی جنس کے ذریعے لکھوایا گیا ہے۔ اُس طالبہ نےکمال ہوشیاری سے اے آئی کےذریعے لکھوایا گیا مضمون ایک دوسرےسافٹ ویئرمیں پیسٹ کیا جس سے الفاظ بدل گئے۔۔ پھر اُس نے اسی مضمون کو وہاں سےکاپی کر کے دوبارہ چیٹ جی پی ٹی میں پیسٹ کیا جس نے الفاظ کو مزید بدل ڈالا۔ میری ساتھی طالبہ نے بظاہر سمجھا کہ اُس مضمون میں انسانی سوچ و فکر آگئی ہے اور اب چوری نہیں پکڑی جائے گی کہ مضمون کس طرح لکھا گیا ہے، مگر یہ کوئی قابل اعتماد اور قابل رشک بات نہیں ہے۔ اب تو عالمی سطح پر بھی یہ بات کھلنا شروع ہو گئی ہے کہ اگر طلباء اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور ہنر کو بروے کار لانے کے بجائے مکمل طور آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے تیار کردہ کونٹینٹ یعنی معلومات پر انحصار کریں گے تو سوچنے سمجھنے کی اُن کی اپنی صلاحیت وقت کےساتھ کم یا پھر ختم ہو جائے گی۔ اس لئے عالمی سطح پر اس کو ضابطہ اخلاق میں لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ اسکولوں میں Generative AI کے استعمال کو کسی ضابطہ اخلاق میں لے کر آئیں۔ Generative AI، دراصل آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا وہ شعبہ ہے جس میں یہ ٹیکنالوجی تحریر، تصاویر اوردیگر میڈیا خود کار طریقے سے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یونیسکو نے تعلیم میں Generative AI کو استعمال کرنے کے لئے بھی انسانی سوچ کو مرکز و محور یقینی بنانے کےلئے مناسب ضوابط تیار کرنے اور اساتذہ کی تربیت کی تجویز دی ہے۔
Generative AI یا تخلیقی آرٹیفیشل انٹیلی جنس غیر صلاحیتوں کی عامل غیر معمولی ایجاد ہے جس سے انسانی ترقی کے لیے بےمثال مواقع دستیاب ہوئے ہیں، لیکن کسی سوچ و فکر کےبغیراس کا بے جا استعمال بے انتہا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتاہے ۔
اپنی گائیڈ لائنز میں یونیسکو کہتی ہے کہ وام کی رائے جانے بغیر Generative AI کو شعبہ تعلیم میں ضم یا شامل نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ ضروری ہے کہ حکومتیں پہلے تمام ضروری حفاظتی انتظامات اور بہترین قواعد و ضوابط بنا لیں۔ یہ رہنمائے اصول
پالیسی سازوں اور اساتذہ کی مدد کریں گے کہ وہ طلباء کو سیکھنے میں مدد دینے کے لئے Generative AI کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لا سکیں۔
یونیسکو نے تیرہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم و تحقیق میں Generative AIکے اخلاقی استعمال کےلئے حکومتیں کو سات بنیادی تجاویز اور پالیسی فریم ورک پیش کیا ہے۔ اس میں عالمی، مقامی اور قومی سطح پر ڈیٹا کا تحفظ اور پرائیویسی کے معیارات بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے کلاس رومز میں AI ٹولز کے استعمال کےلئے 13 سال کی عمر تجویز کی ہے اور اس مضمون پر اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر تربیت پر بھی زور دیا ہے۔
ان گائیڈلائنز میں مصنوعی ذہانت میں اخلاقیات کے استعمال پر یونیسکو کی 2021 کی سفارشات اور شعبہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت پر بیجنگ میں 2019 میں ہونے والے اتفاق رائے کو بنیادبنایا گیا ہے۔ یعنی اس ٹیکنالوجی میں انسانی فکرکے استعمال، مساوات۔ صنفی مساوات۔ ثقافت اور زبانوں کے امتزاج کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیئے۔
نومبر 2022 میں مصنوعی زہانت سے لیس چیٹ جی پی ٹی کےلانچ ہوتے ہی Generative AI نے دنیا بھر میں زبردست پذیرائی حاصل کر لی تھی۔ Generative AI میں صلاحیت ہے کہ آپ اس کی مدد سے ٹیکسٹ، تصویر، ویڈیوز، میوزک اور سافٹ ویئر کوڈز تخلیق کر سکتے ہیں، اسی وجہ سے یہ Generative AI شعبہ تعلیم و تحقیق کےلئے نہایت پرکشش ثابت ہوئی، لیکن اس کے باوجود ایجوکیشن سیکٹر تیزی سے تخلیق ہونے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس انقلاب کے اخلاقی لحاظ سے درست استعمال کےلئےتیار نہیں ہے۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں 450 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا گلوبل سروے کیا ہے جس میں انکشاف ہوا ہےکہ ان میں سے صرف 10 فیصد سے بھی کم اداروں نے AI applications کے استعمال کے حوالے سے پالیسیاں تشکیل دی ہیں یا باضابطہ رہنمائےاصول بنائے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قومی سطح پر قواعد و ضوابط کا نہ ہونا ہے۔
یونیسکو نے اس سال جون میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ اسکولوں میں AI applications کا استعمال بہت تیزی سے شروع ہو رہا ہے، لیکن قواعد و ضوابط، عوام کی رائے یا عوام کے تحفظ کے اقدامات کی تشویشناک حد تک کم ہیں۔ اس لئے بچوں کے لئے نئی درسی کتاب میں AI applications کے بجائے مصدقہ اور قابل اعتماد مواد شائع کیا جائے۔
رپورٹ میں ایک نہایت باریک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا ہےکہ چیٹ جی پی ٹی کے موجود ماڈلز کی بنیاد Global North یا قطب شمالی کے آن لائن صارفین ہیں جو انہی امیر ممالک کی اقدار اور سماجی و معاشرتی معیارات کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ قطب جنوبی یا کم آمدنی والے ممالک کے معاملات، ترقی یافتہ ممالک سے بالکل الگ ہیں۔
تحریر: زینب وحید
کلاس۔ اے لیولز II