ہمارے ہاں آج تک آنے والی تمام حکومتوں میں بیرونی قرضہ جات حاصل کرنے کی رفتار اس قدر تیز رہی ہے کہ اس وقت پاکستان کے ذمے اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے واجب الادا ہیں یعنی پاکستان کا ہر فرد تقریباً لاکھوں روپے کے بیرونی قرض کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور مزید غیر ملکی قرضوں کے حصول کا سلسلہ بھی جاری ہے جب کہ پہلے سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے عوام پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کی بد قسمتی ہے کہ قرضے حکمران لے کر تھوڑا بہت عرصہ کے لئے اقتدار سے ہٹ جاتے ہیں اورقوم اس قرضہ کی ادائیگی مختلف شکلوں میں کرتی رہتی ہے۔ ہماری حکومتیں تعلیم اور صحت کے نام پر غیر ملکی اداروں سے قرضے وصول کرتی رہی ہیں مگر وہ کہیں بھی استعمال ہوتے نظر نہیں آئے، امداد دینے والے ادارے بھی اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی امداد کے اہداف کو پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہم ان کے اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے مزید قرضے لینے کے لئے دوسرے اداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے شروع کر دیتے ہیں۔
غیر ملکی امداد قرضہ جات سے مراد وہ مالی، مادی اور تیکنیکی امداد لی جاتی ہے جو دو طرفہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت آزاد ملک ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں۔ امداد یا قرضہ جات عموماً تجارتی، دفاعی، معاشی اور دوسری ضرورتوں کے تحت حاصل کئے جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر اس قسم کی امداد و تعاون کے لین دین کے پیچھے معاشی و سیاسی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اگر چہ عام طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امداد و تعاون انسانی ہمدردی، عالمی امن اور عالم گیر بھائی چارے کے اصولوں کے تحت ضرورت مند ملکوں کو پیش کئے جا رہے ہیں مگر بد قسمتی سے قرضہ خواہ ممالک اپنی شرائط پر امداد حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہونے کی وجہ سے امداد دہندگان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
پاکستان بھی تیسری دنیا کے ان نو آزاد ممالک میں سے تھا جو اس جذبہ سے معرضِ وجود میں آیا تھا کہ اہلِ مغرب سے چھٹکارا پا کر اسلامی تعلیمات کے مطابق یہاں کے لوگ زندگی گزاریں گے لیکن سیاسی آزادی کے ساتھ ہی پاکستان کو معاشی تہذیبی غلامی کی زنجیریں خوش رنگ و آہنگ ناموں سے
پہنا دی گئیں۔ مغرب نے اقتصادی مہربانیوں کے دروازے کھول دئے۔ زراعت و صنعت کو ترقی دینے کے لئے سائنسی و تیکنیکی مدد حاصل کرنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں نے امداد، گرانٹ، خیرات اور نظریات کو مقدم جانا، امداد تو ملنے لگی لیکن ٹیکنالوجی میں پیچھے رہتے گئے ، یہاں تک کے زراعت، صنعت اور تعلیم کی ترقی کے لئے ملنے والے قرضے اللے تللوں میں صرف کر دئے، کوئی قابلِ ذکر صنعت یہاں کامیاب نہ ہو سکی جو لگیں وہ بھی بیمار ہو گئیں جب کہ دوسری طرف ہمارے قرضے سود لگ لگ کر بڑھتے گئے۔ اس ساری امداد کا مرکز و محور امریکہ و سرمایہ دار مغرب رہا ہے اس لئے ہمارے ہاں جو بھی خارجہ پالیسی بنی وہ ان کے دباؤ میں بنی۔ حکومتوں کی طرف سے ان قرضوں کا جو جواز بتایا جاتا رہا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو سپورٹ کرنے اور غربت میں کمی لانے کے لئے لئے جا رہے ہیں لیکن در اصل موجودہ اور ماضی کی حکومتوں کے حاصل کردہ بیرونی قرضے زیادہ تر غیر پیداواری شعبوں میں استعمال کئے جاتے رہے۔ بیرونی قرضے اگر صنعتی ومعاشی ترقی کے لئے قابلِ عمل پروجیکٹس پر لگائے جائیں تو ان قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ صنعتی و معاشی ترقی حاصل ہو جاتی ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ملک کے قیمتی اثاثوں کی نجکاری کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی گئی لیکن دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتنے قیمتی اثاثے بیچ کر بھی بیرونی قرضے کم نہیں ہوئے حتیٰ کہ کئی قومی اثاثے بیرونی قرضوں کے عوض گروی بھی رکھے گئے۔ پاکستان نے ہمیشہ قرض سے حاصل کی گئی رقم کے بڑے حصے کو بھاری قرضہ جات کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا، جس کی وجہ سے پاکستان کے لئے بہت مشکل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور اب اس امر سے ہر پاکستانی پوری طرح واقف ہے کہ جب آمدنی سے زیادہ خرچ ہو گا اور آمدنی کے وسائل بھی سکڑتے جا رہے ہوں تو مسائل تو پیدا ہوں گے ہی۔ پاکستان بار بار بیل آوٹ پیکجز کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے جو پاکستان کی معیشت کے حوالے سے انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیر ملکی امداد و تعاون کے بغیر ہم انحصاری کی محدود دنیا میں کاروبارِ ریاست چلانا آسان نہیں ہے مگر یہ امداد و تعاون ہمیشہ بہت سوچ بچار کے بعد خالص قومی نقطۂ نگاہ سے قومی انا و غیرت اور ریاست کی بنیاد و اساس کو مجروح کئے بغیر حاصل کرنی ہوتی ہے۔ غیر ملکی قرضے جنہیں عرفِ عام میں امداد کا نام دیا جاتا ہے ہر گز انسانی ہمدردی یا ملکی پسماندگی کے تصورات کے تحت نہیں دئے جاتے ہیں بلکہ ان قرضوں پر پورے تجارتی اور معاشی ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے اور مارکیٹ کے بھاؤ کے مطابق لئے اور دیئے جاتے ہیں۔ قرضہ دینے والے ممالک اور ادارے قرض لینے والے معاشروں اور معیشتوں کو پورے شکنجے میں کستے ہیں ان قرضہ دینے والوں کی مرضی پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں قرض خواہ ملکوں میں روز مرہ کی اشیاء کے نرخ کا تعین، ٹیکسوں میں ردو بدل قرضہ دہندگان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔غیر ملکی امداد و تعاون کے ساتھ اکثر و بیشتر ایسی ناروا شرائط عائد کر دی جاتی ہیں جن کو قبول کرنا کسی قوم کے لئے اتنا آسان نہیں ہوتا۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں قوموں کے لئے غیر ملکی امداد و قرضہ جات کا حصول بڑی حد تک ناگزیر ہے،ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے روابط سے منسلک ہونے پر مجبور ہیں جن سے ان کی غیرت و انا پر زد پڑتی ہے کیونکہ دنیا کی 95فیصد سائنس و ٹیکنالوجی پر 5فیصد اقوام کا قبضہ ہے اسلحہ، اجناس و خوراک کی امداد کے بغیر شائد گزارہ ہو جائے مگر جدید ٹیکنالوجی کے بغیر اس دور میں زندہ رہنا پھلنا پھولنا محال ہے۔ لیکن غیر ملکی امداد اس حد تک جائز و مناسب ہے کہ قومی انا و غیرت پر زد نہ پڑتی ہو اور اس حاصل ہونے والی امداد سے قومی ترقی و تعمیر کا مقصد حاصل ہوتا نظر آ سکے۔ جب یہ امداد قومی غیرت کا سودا کر کے چند افراد اور طبقوں کی ذاتی مراعات و خواہشات کی تکمیل کے لئے حاصل کی جائے تو یہ زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔
قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ایک اسلامی مملکت بننے کا متمنی وطنِ عزیز پاکستان اگر چاہے تو داخلی و خارجی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کے ذریعے ایک نظام تشکیل دے سکتا ہے جس سے نہ صرف غیر ملکی قرضہ جات سے چھٹکارا ملے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مختصر عرصے میں ایک مضبوط اور مستحکم آزاد خود مختار پاکستان عالمِ وجود میں آ سکتا ہے۔