اس سال مارچ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے امریکہ میں اپنی معیاد سفارت مکمل ہونے پر امریکی انڈر سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لو سے اپنی الوداعی ملاقات کے موقع پر ہونے والی گفتگو کا جو سائفر اپنی وزارت خارجہ کو بھجوایا اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے انہی دنوں قومی اسمبلی میں اپنے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دیکر اس کی کڑیاں اس سائفر سے جوڑ کر اسے منفی پراپیگنڈے اور اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کیا ، اس کی حقیقت جناب عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور اپنے حکومتی ساتھیوں (دو سابق وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر ) سے ہونے والی گفتگو پر مشتمل دو آڈیوز کے افشاء Leak) ( سے سامنے آگئی ہے۔ ان آڈیوز میں کیا کیا باتیں ہوئیں ، کس طرح کے کھیل کھیلنے اور منفی پراپیگنڈے کی منصوبہ بندی ہوئی اس کی تفصیل آگے چل کر بیان ہوگی ۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیو ںکا کیا موقف سامنے آرہا ہے اور دوسری طرف وفاقی حکومت نے اب تک اس بارے میں کیا کاروائی کی ہے۔ بلاشبہ دونوں طرف سے آڈیوز کے اس افشاء کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان اور ان کے فواد چوہدری جیسے ساتھی آڈیوز میں ہونے والی گفتگو کی تردید کرنے یا اس کا جواب دینے کی بجائے حسب عادت آگے بڑھ کر اسے عمران خان کے اپنی حکومت گرانے کے لیے غیر ملکی سازش کے بیانیے کے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ سائفرکے معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے لیکن یہ تحقیق ایف آئی اے کی بجائے سپریم کورٹ کا جوڈیشل کمیشن کرے۔ دوسری طرف حکومت نے ان آڈیوز میں ہونے والی گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے بارے میں ضروری اقدامات کرنے کے لیے کابینہ کی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کمیٹی نے اس بارے میں اپنی سفارشات ہی پیش نہیں کر دی ہیں بلکہ سرکولیشن کے ذریعے ان سفارشات کی وفاقی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی ہے اورکابینہ ڈویژن نے مراسلہ جاری کر دیا ہے جس کے تحت سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ضروری کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ایف آئی اے سے کہا گیا ہے کہ وہ سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی جن میں دوسرے انٹیلی جنس اداروں سے افسران اور اہل کاروں کو لیا جا سکتا ہے تشکیل دے جو عمران خان ، دو سابق وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے تفتیش کرے گی۔ کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں سفارش کی تھی کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین اثرات ہیں لہذا قانونی کاروائی لازم ہے۔
کابینہ کمیٹی کی اس سفارش کی جیسے اوپر کہا گیا ہے کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے فوری منظوری لینے کے بعد اس پر عمل در آمد کے لیے کابینہ ڈویژ ن نے سابق وزیر اعظم عمران خان ، ان کے دو وزراء اور
ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے خلاف ضروری کاروائی کا جو مراسلہ جاری کیا ہے بلاشبہ یہ اس معاملے کی انتہائی اہم اور نازک صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جب یہ سطور لکھی جار ہی ہیں تو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے ایف آئی اے اسلام آباد کے ڈائریکٹر کی سربراہی میں 5رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہیں اور اس میں آئی ایس آئی ، آئی بی اور ایم آئی کو بھی ایک ایک نمائندہ بھیجنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ اس ساری کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سائفر کے معاملے کی تحقیق کو پوری اہمیت اور توجہ دے رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ عمران خان نے اس بارے میںجو منفی پراپیگنڈہ اور سازشی بیانیہ شروع کر رکھا ہے اس کی حقیقت ہی سامنے نہ آجائے بلکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہو جائے۔
آگے بڑھنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گفتگو پر مبنی جو آڈیوزیکے بعد دیگرے 28اور 30ستمبر کو افشاء (Leak) ہوئی ہیں ان میں کیا کہا گیا ہے۔ معروف سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن جناب جاوید چوہدری نے ایک قومی معاصر میں چھپنے والے اپنے کالم میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ جس کے مطابق عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے کہتے سنائی دیتے ہیں "اب ہم نے بس کھیلنا ہے، اس کے اوپر نام نہیں لینا امریکہ کا ، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے بھی اس کے اوپر"۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان وزیر اعظم کو مشورہ دیتے سنائی دیتے ہیں۔ "آپ میٹنگ بلائیں اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری سہیل محمود یہ خط پڑھ دیں، میں اپنے ریکارڈ پر لے آوں گا۔ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں ، میں خط کو دھمکی بنا دونگا۔ " عمران خان میٹنگ کی وجہ پوچھتے ہیں تو پرنسپل سیکرٹری بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس خط کی آفیشل کاپی نہیں ہے ہمیں اس سے آفیشل بنانے کے لیے میٹنگ کرنی چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔
دوسری آڈیو جو 30ستمبر کو سامنے آئی اس میں جاوید چوہدری کے مطابق عمران خان شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لیتے ہیں، اسد عمر کہتے ہیں یہ تو میٹنگ کی ٹرانسکرپشن ہے ، یہ لیٹر نہیں اور عمران خان کہتے ہیں آپ اسے چھوڑو، پبلک کو لیٹر اور ٹرانسکرپشن کا فرق پتا نہیں۔ جاوید چوہدری آگے چل کر لکھتے ہیں کہ کیا اس کے بعد میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں سیکرٹری خارجہ نے وہ سائفر پڑھا تھا ؟ میری معلومات کے مطابق میٹنگ ہوئی تھی لیکن سیکرٹری خارجہ نے سائفر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا میں سرکاری حیثیت میں یہ نہیں کر سکتا۔ سفارت خانوں کے سائفرز سیکرٹری خارجہ کے لیے ہوتے ہیں ۔ ہم صرف سائفرز کی سمریاں بنا کر متعلقہ محکموں کو بھیجواتے ہیں۔ ہم اپنا سسٹم کسی کے لیے اوپن نہیں کر سکتے۔ جناب جاوید چوہدری کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بعد ازاں سیکرٹری خارجہ پر دبائو ڈالا اور سیکرٹری خارجہ نے آفیشل چینل سے سائفر کی سمری وزیر اعظم آفس بھیجوا دی اور یہ سمری اب ریکارڈ سے غائب ہے۔جاوید چوہدری مزید لکھتے ہیں بہر حال قصہ مختصر ، وزیر اعظم عمران خان نے 27مارچ کو پریڈ گراونڈ کے جلسے میں سمری لہرائی اور اسے لیٹر قرار دے دیا۔ اصل سائفر 31مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا تھا۔ یہ اجلاس عمران خان کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔ سائفر کی کاپی تمام شرکاء کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن وہ کاپی ساتھ لے جا سکتے تھے اور نہ اس کے نوٹس بنا سکتے تھے۔ اسے صرف پڑھا جا سکتا تھا اور وہ پڑھا گیا اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا، جس میں یہ ڈکلیر کیا گیا ، "پاکستان کے خلاف کوئی غیر ملکی ساز ش نہیں ہوئی" اس میٹنگ کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور عمران خان نے آرمی چیف سے کہا تھا "جنرل صاحب بس ڈیماش ہو گیا ، یہ بات اب یہاں ختم ہو جائیگی" اور تمام لوگ خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے۔ جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی ۔ وہ خط ،مراسلہ، یا سائفر آگے بڑھتا چلا گیا اور اس میں سے نیوٹرلز کا طعنہ بھی نکلا، ایمپورٹڈ حکومت کے بیش ٹیگ نے بھی جنم لیا ، میر صادق اور میر جعفر بھی پید ا ہوئے ، غدار اور سازشی کا بیانیہ بھی بنا اور آخر میں اس سے گیدڑ اور شیر بھی نکل گیا اوردیکھئے گا اب دسمبر میں چار لوگوں کے نام بھی نکل آئیں گے۔
ان اقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ سے آنے والے معمول کے ایک سائفر کو کیسے سازشی کہانی میں تبدیل کیا گیا۔ تبدیل کرنے یا کروانے والا شخص کوئی اور نہیں ہے جناب عمران خان ہیں جو بطور وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہی نہیں تھے بلکہ مملکت کے معاملات کو اس کی سلامتی ، اس کے تحفظ اور اس کے مفادات کا خیال رکھنے کے تناظر میں آگے بڑھانے کے ذمہ دار اور امانت دار بھی تھے ۔ اس ساری تفصیل کو جان کر کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان جس طرح کا منفی پراپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں ، رجیم چینج اور ایمپورٹڈ حکومت کے طعنے دے رہے ہیں، حقیقی آزادی کے حاصل کرنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں کیا ان میں کچھ حقیقت بھی ہو سکتی ہے ؟ یقینا ایسا نہیں ہے لیکن پسند اور ناپسند کی انتہائی حدوں کو چھونے والی فضا میں ان باتوں کی طرف کس نے توجہ دینی ہے۔ جناب عمران خان کے حمایتی اور ان کے پیروکار کچھ بھی ہوجائے ، کتنے حقائق ان کے سامنے لائے جائیں ، ان کے لیے جناب عمران خان کی ہر بات خواہ اس کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں حکومت نے سائفر کہانی کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیوز کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے تاخیر سے کیا جانے والا ضروری فیصلہ سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عمران خان، ان کے قریبی ساتھی اور ان کے پیروکار تحقیق کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہونگے بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت ایف آئی اے کی کسی اعلیٰ اختیاراتی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کروانے کی بجائے سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ کسی جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا راستہ اختیار کرتی۔ خیر اب ایف آی اے کے نوٹیفیکشن کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی قائم ہو چکی ہے ۔ کمیٹی کو اپنی تحقیقات میں تاخیر نہیں کرنی ہوگی ۔ اس معاملے میں جتنی بھی تاخیر ہو گی وہ حکومت کے حق میں نہیں ہوگی۔