اسلام آباد : پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ مالی معاملات میں بلواسطہ طور پر انڈیا پر انحصار کرتا ہے۔
نیو نیوز کے مطابق یہ بات چیئرمین پی سی بی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے دورہ پاکستان کی منسوخی سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔
رمیز راجہ نے پاکستان کرکٹ کی معاشی حالت کو بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'انٹرنیشنل کرکٹ کونسل 90 فیصد پیسہ انڈین کرکٹ سے اکٹھا کرتا ہے اور اگر بھارت وزیراعظم یہ فیصلہ کر لیں کہ اس فنڈز میں سے پاکستان کو پیسے نہیں دیے جائیں گے تو پاکستان کرکٹ بورڈ بالکل بیٹھ جائے گا۔
رمیز راجہ کے مطابق انڈیا کے ساتھ آئی سی سی کے معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ 'انڈیا کے بزنس ہاؤسز پاکستان کرکٹ کو چلا رہے ہیں۔ رمیز راجہ نے کہا کہ اگر پاکستان کرکٹ معاشی اعتبار سے مضبوط ہو تو پھر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی طرح کوئی ٹیم آدھے گھنٹے میں ہمیں چھوڑ کر نہیں جائے گی۔
رمیز راجہ نے کہا کہ ماہرین کی رائے میں ’آئی سی سی میں سیاست ہو رہی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ آئی سی سی ایونٹ مینجمنٹ کمپنی بن کر رہ گئی ہے۔
رمیز راجہ نے پارلیمنٹیرینز کو تفصیل سے بتایا کہ پاکستان کرکٹ کے پچاس فیصد فنڈز انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے کیسے آ رہے ہیں اور آئی سی سی کو 90 فیصد فنڈنگ انڈیا سے کیسے حاصل ہوتی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی کے اس سوال پر کہ انڈیا تو فنڈز آئی سی سی کو دیتا ہے پاکستان کو نہیں، رمیز راجہ نے وضاحت کی کہ آئی سی سی جو ٹورنامنٹ کراتا ہے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اپنے ممبرز میں تقسیم کر دیتا ہے جس سے پاکستان کو اپنی کرکٹ کا پچاس فیصد حاصل ہو جاتا ہے۔
چیئرمین پی سی بی کے مطابق آئی سی سی کو پاکستان سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ہماری کرکٹ اکانومی کمزور ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ خود پاکستان آئی سی سی کو ٹکا بھی نہیں دیتا۔
چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آئی سی سی پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا اور سالانہ اس میں دس فیصد کمی لانا ہوگی تاکہ کوئی بھی ٹیم مستقبل میں ہمارے ساتھ ایسا نہ کرے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ سکیورٹی کو وجہ بتا کر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے دورہ پاکستان منسوخ کر دیا تھا۔نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچ کر بغیر کوئی میچ کھیلے واپس چلی گئی جبکہ انگلینڈ کی مردوں اور خواتین کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کرنے سے ہی معذرت کر لی۔
چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ ’ہمارے دباؤ سے نیوزی لینڈ دورہ کرنے کا دوبارہ پروگرام بنا رہا ہے اور اس سے متعلق اگلے ہفتے اچھی خبر سامنے آئے گی۔رمیز راجہ نے کہا کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کی آمد مارچ میں متوقع ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے رمیز راجہ نے کہا کہ نیوزی لینڈ نے سکیورٹی خدشات کے باعث دورہ منسوخ کیا جبکہ انھیں سکیورٹی خدشات سے متعلق بتانے سے انکار کیا گیا اور جب وہ برطانوی ہائی کمشنر کے پاس گیا تو 'فائیو آئیز' سے متعلق بتایا گیا۔
رمیز راجہ نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ اس میں ’ہماری غلطی نہیں ہے، ساری دنیا کو معلوم ہے کہ دس برس سے ہماری نیت کرکٹ بحالی پر ہے لیکن ہماری مدد کسی نے نہیں کی اور ہم دوسروں کے لیے بھٹکتے رہے اور کورونا کے دوران سفر کر کے میچز بھی کھیلے ہیں۔ہماری کرکٹ تاریخ ہے، کوئی ہمیں ایسے استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینک سکتا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے رمیز راجہ کو سنہ 1992 کے ورلڈ کپ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کا بھاگتے ہوئے پکڑا گیا کیچ بھی یاد ہے، جس پر رمیز راجہ نے کہا کہ عمران خان کا کیچ آپ مِس بھی نہیں کر سکتے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان نے تو اس کو کیش بھی کرا لیا ہے آپ صرف اسی حد تک آ سکے ہیں جس پر رمیز راجہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انشااللہ آگے بھی جائیں گے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر رضا ربانی کی نیوزی لینڈ سے کرکٹ نے کھیلنے کی تجویز پر رمیز راجہ نے بتایا کہ ہم نے کرکٹ ٹیم کو بہترین اور کرکٹ اکانومی بنانا ہے۔ کم از کم پاکستان ایشیا کی دوسری بہترین کرکٹ اکانومی ہو۔
رمیز راجہ نے کہا کہ ’ہم یہ (نیوزی لینڈ سے) کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو 2022 میں ٹائم دے سکتے ہیں‘۔ ان کے مطابق اگر وہ (نیوزی لینڈ) ہماری شرائط کے مطابق کھیلنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے استفسار کیا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ ایسے واقعات ہوئے جن میں چند کھلاڑی ملوث تھے اور ان کو نکال دیا گیا، اب اس حوالے سے کیا کیا جا رہا ہے کہ کھلاڑی اس طرف نہ جائیں۔ رمیز راجہ نے جواب دیا کہ کھلاڑیوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے، لیکچرز ہوتے ہیں، پیسے بڑھانے کا مقصد بھی یہی ہے مگر جس نے تہیہ کرلیا ہے کہ ملک کا نام بدنام کرنا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کے مطابق جو کھلاڑی ماضی میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں تو ان کو ٹیم میں نہیں شامل کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ بار بار ان کھلاڑیوں کو واپس لے آتے ہیں تو نوجوانوں کو بھی حوصلہ مل جاتا ہے، قوم پھر ان کو ہیرو بھی بنا دیتی ہے کہ ان کو نہ کھلانے کی وجہ سے ہار گئے۔
انھوں نے کہا میری پالیسی واضح ہے جس کرکٹر نے میچ فکنسگ کی اسے دوبارہ ٹیم میں نہیں لانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی ایسے کرکٹرز کے ساتھ ہو جاتی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایتھلیٹ ارشد ندیم اور طلحہ حبیب کو خصوصی شیلڈز پیش کیں اور اولمپک مقابلوں میں ان کی کارکردگی کو سراہا۔ ارشد ندیم نے کمیٹی کو بتایا کہ ’اگر میں ٹریننگ کے حوالے سے بتاؤں تو کافی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔‘ ان کے مطابق ہر کھلاڑی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے نوکری ڈھونڈے۔ ارشد ندیم نے کہا کہ سنہ 2015 میں واپڈا کی نوکری لی، اس کے بعد سپورٹس شروع کیا۔ ان کے مطابق اگر اداروں سے سپورٹس ختم کیا گیا تو ملک سے کھیل ہی ختم ہوجائے گا۔
طلحہ حبیب نے کہا کہ اداروں سے سپورٹس ختم کیا جا رہا ہے، جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے۔ انھوں نے تجویز دی کہ اداروں کی سپورٹس ختم نہ کی جائیں۔