کس کس بات کا نوحہ لکھیں؟ مہنگائی، بے روزگاری، نا انصافی، روز بروز بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، زندہ رہنے کے لئے استعمال کی جانے والی ادویات کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیںاور ریاست مدینہ کا خواب آنکھوں میں سجائے ، غربت و لاچاری کی چکی میں پستی عوام، کوئی بھی تو نہیں ہے جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے ۔ بڑے بڑے دعوے و نعرے مٹی میں مل چکے اور جب بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بات کی جاتی ہے ، مہنگائی کا منہ زور گھوڑا اسی شدت کے ساتھ بھاگنا شروع ہو جاتا ہے اور یوں عوام جو پہلے ہی زندگی کو عذاب کی مانند گذارنے پر مجبور ہے مزید تباہ حال ہوجاتی ہے۔
دور حاضر میں ان تمام مسائل کی وجہ سے عام آ دمی نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے وہ مختلف عوارض میں بھی مبتلا ہورہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ غربت اور بیماری کا پہلے ہی چولی دامن کا ساتھ ہے، رہی سہی کسر ان مسائل نے ختم کر دی ہے ۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ ہسپتالوں میں بھی عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ ریاست مدینہ کا نعرہ بلند کر نے والوں نے زبانی کلامی احتساب کے علاوہ کچھ اور نہ کیا ہے جس کی وجہ سے اداروں اور محکموں میں کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ الامان الحفیظ۔ وزیراعلیٰ آفس میں بیٹھے بڑے ، کرپشن کے مگر مچھوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لاہور کے سر کاری ہسپتالوں میں گذشتہ کئی مہینوں سے لوکل پرچیز کی مد میں اربوں روپے ڈکار جانے والوں کی نشاندہی نہ کی جا سکی ہے ۔کرپشن کے ناسوروں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور وہ مزید سینہ چوڑا کر کے کھلم کھلا کرپشن کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتالوں بشمول، جناح، سروسز، جنرل اور میو کی ایمرجنسی اور ان ڈور مریضوںکے لواحقین سے ادویات باہر سے منگوائی جا رہی ہیں۔ سونے پر سہاگہ محکمہ صحت پنجاب کی وزیر موصوفہ جو صرف پریس کانفرنس کے ذریعے ہی لوگوں کو طفل تسلی دینے کی ماہر سمجھی جاتی ہیں اورکام بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ۔رہی سہی کسر سیکریٹری نے پوری کر دی ہے کہ جن سے ایک صحافی نے اس حالیہ بحران پر سوال کیا تو انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ایمر جنسی میں ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ محکمہ صحت کے حالات اس قدر بُرے ہو چکے ہیں کہ لندن میں بیٹھے نواز شریف کو اب تک تین ویکسین لگا دی گئی ہیں ۔ اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیسے لے کر کرونا کا سرٹیفیکیٹ دینے کا دھندہ کس قدر عروج پر ہے اور اس میں اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے ۔کرونا کے ساتھ شہر کو ڈینگی کی آفت نے بھی گھیرے میں لے لیا ہے ۔ لیکن ابھی تک نہ کوئی ایکشن پلان مرتب کیا گیا اور نہ ہی شہر میں سپرے کروایا گیا۔ شہباز دور میں ڈینگی سپرے والی گاڑیاں اب افسران کے گھروں کے سامان کے لئے استعمال ہو رہی ہیں ۔ ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہ کئے گئے ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ ہسپتالوں و لیبارٹریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک معقول رقم میں علاج کیا جائے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کرونا کے چکروں میں محکمہ صحت پنجاب نے پرائیویٹ ہسپتالوں کو اربوں کا بزنس دیا ، ایسے ہی ڈینگی کی وبا میں دیکھنے کو ملے گا ۔
قارئین کرام ! گذشتہ تین دنوں کے اندر سر کاری ہسپتالوں کی حالت زار کی ایسی ایسی داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملی ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں ملیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے میاں شہباز شریف شدت کے ساتھ یاد آنا شروع ہو گئے جو بیوروکریسی اور سر کاری محکموں کے افسران کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے ۔ ان کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ایسا کوئی بلنڈر ماریں جو آج کل مارے جا رہے ہیں ۔ ایک بڑے ہسپتال میں ایک ایسا ایم۔ایس تعینات ہے جو صرف اپنے افسروں کو خوش کرنے میں مصروف ہے اور جی حضوری میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ عام آدمی پر نظر ہی نہیںدوڑاتے۔ یہاں ایمرجنسی کا حال یہ ہے کہ انجکشن لگانے کے لئے سرنج اور سپرٹ کاٹن ہی دستیاب نہیں ۔ باقی زندگی بچانے والی اور دیگر ادویات کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا کیا حال ہو گا۔ مریضوں کے لواحقین مہنگے داموں ادویات باہر سے لانے پر مجبور ہیں ۔ ہسپتال میں تمام ٹیسٹوں کی سہولت کے باوجود مریضوں کے ٹیسٹ مہنگی لیبارٹریوں سے کروائے جا رہے ہیں۔ سروسز ہسپتال کی صورتحال بھی اس سے ملتی جلتی ہے ۔ یہاں بھی آپریشن تھیٹر کے اندر مریضوں کی چیڑ پھاڑ کے دوران ان کے لواحقین کو ادویات کی پرچی تھمادی دی جاتی ہے اور ہزاروں کا سامان منگوا کر متعلقہ سٹور مالکان سے ساز باز کرتے ہوئے پیسے آپس میں بانٹ لئے جاتے ہیں ۔
قارئین کرام ! ریاست مدینہ کے دعوے داروں اور بالخصوص وزیر صحت پنجاب نے ، محکمہ صحت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اہل لاہور سے تو بالخصوص بدلہ لیا جا رہاہے ۔ ہسپتالوں میں ایسے نکمے اور نالائق افسران کو ایم۔ایس تعینات کیا ہوا ہے جنہیں مریض کی کوئی پرواہ نہیں ، پرواہ ہے تو کرپشن کے نام پر اپنے بنک بیلنس بھرنے کی ۔ اس ساری صورتحال میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب خاموش بیٹھے رہیں تو میں سمجھتا ہوں یہ سسٹم کی ناکامی ہو گی ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ایکشن میں آئیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑے محکمہ صحت میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔