’’پینڈورا لیکس کی کہانیاں اور لطیفے ‘‘

’’پینڈورا لیکس کی کہانیاں اور لطیفے ‘‘

آغاز عاصمہ جہانگیر کی ایک ضرب المثل سے کرنا چاہتا تھا مگر پھر پاکستان کے ہر دلعزیز کھلاڑی و سیاستدان عمران خان کی ایک ضرب المثل یاد آگئی ، انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ کوئی ملک اس لئے غریب نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وسائل نہیں ہیں، ملک غریب تب ہوتا ہے جب اس کے حکمران ملک کو لوٹتے ہیں اور عوام کا پیسہ چوری کر کے باہر لے جائیں‘‘۔
پینڈورا لیکس کیا ہے ، آف شور کمپنی کے معاملات کیا ہوتا ہے، کون سی آف شور کمپنی حلال ہوتی ہے اور کون سی حرام اس حوالے سے بات کرنے سے پہلے آپ کو پینڈورا لیکس سے معلوم ہونے والی ایک کہانی سناتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ دنیا بھر کے170ممالک ،150میڈیا اداروں اور 600سے زائد رپورٹرز  نے 2سال کی تحقیقات کی بعد جوایک کروڑ 19لاکھ فائلوں پر مشتمل پینڈورا لیکس تیار کی ہیں ان میں کیسے کیسے نگینے شامل ہیں۔
 جنرل پرویز مشرف پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے، آئین کے آرٹیکل 6کو پیروں تلے روند پر مارشل لگا چکے تھے، اور ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں، جنرل پرویز مشرف لندن میں تھے، انہیں بال کٹوانے کا خیال آیا تو ڈورچیسٹر ہوٹل پہنچے جہاں پر ان کی ملاقات بھارتی فلم ساز و ہدایتکار کے آصف کے صاحبزادے اکبر آصف سے ہوتی ہے،یہ وہی کے آصف تھے جنہوں نے مغل اعظم جیسی شہرہ آفاق فلم ڈائریکٹ کی تھی۔ مبینہ طور پر اس ملاقات کا انتظام لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت اللہ شاہ نے کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت اللہ شاہ کو جنرل پرویز مشرف کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا، وہ جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری ، لاہور کے کور کمانڈر رہے اور 2008کے انتخابات کے بعد انہیں جی ایچ کیو میں چیف آف لاجسٹکس لگا دیا گیا۔ ذکر ہو رہا تھا لندن کے ایک ہوٹل میں اہم ملاقات کا، اکبر آصف نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات میں درخواست کی کہ پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی ہے، براہ مہربانی اس پابندی کو ہٹا دیں تاکہ ہماری فلموں کو پاکستان میں بھی ریلیز کیا جا سکے ۔جنرل پرویز مشرف نے اس درخواست کو اہمیت دی اور پاکستان واپس آتے ہیں بھارتی فلموں پر سے پابندی ہٹانے کا حکم صادر فرما دیا۔ کچھ عرصے بعد اکبر آصف کی آف شور کمپنی طلحہ لمیٹڈ کے ذریعے لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدا جاتا ہے اور پھر1.2ملین ڈالر مالیت کا یہ اپارٹمنٹ لیفٹیننٹ جنرل(ر) شفاعت اللہ شاہ کی اہلیہ فریحہ شاہ کے نام منتقل کر دیا جاتا ہے۔
آف شور کمپنیوں کا براہ راست تعلق عوام پر بڑھتے ہوئے مہنگائی کے بوجھ اور ٹیکس سے ہوتا ہے، ناجائز دولت کو چھپانے کیلئے ایک پوشیدہ مالیاتی نظام بنایا گیاہے جو ہر کسی کیلئے کھلا نہیں ہوتا، ہر کوئی ان مالیاتی لین دین تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا مقصد ہی چھپانا ہوتا ہے۔ دنیا کے کچھ ممالک کو ٹیکس ہیون کہا جاتا ہے جہاں پر امیر لوگ اکثر ٹیکس کے بغیر اور اکثر بہت معمولی ٹیکس پر اپنی رقوم جمع کروا دیتے ہیں، پانامہ، برٹش ورجن آئی لینڈ ، سنگا پور وغیرہ آپ کو یہ سہولت د یتی ہیں کہ آپ اپنی مالیاتی تفصیلات کو اس ملک سے چھپا سکیں جہاں سے آپ یہ دولت کما کر اس ملک میں لائے ہیں،اس کیلئے اکائونٹنٹ آپ کیلئے ایک آف شور کمپنی خریدتا ہے، اس کمپنی کے نام سے آپ بنک اکائونٹ کھولتے ہیں، اس اکائونٹ کے ذریعے آپ بحری کشتیاں ، پرائیوٹ طیارے، لگژری گھر یا کچھ بھی خریدتے ہیں اور یہ سب آف شور کمپنی کی ملکیت ہوتا ہے۔  دنیا کے امیر ترین لوگ جن میں باد شاہ، سیاستدان، کاروباری شخصیات، اپنی دولت کو آف شور کمپنی میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد اپنے ملک میں ٹیکس سے بچنا ہوتا ہے، جو کہ قانونی ہے اور قانون اس کی اجازت  دیتا ہے، مگر یہاں ایک حد ایسی ہے جہاں پر یہ ٹیکس چوری میں بدل جاتا ہے اور غیر قانونی بھی ہو جاتا ہے ۔
پینڈورا لیکس میں پاکستان کے سیاستدان، سابق فوجی افسران، بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں۔میجر جنرل (ر) نصرت نعیم آئی سی آئی کے سابق ڈی جی سی آئی ہیں، انہوں نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں افغان آئل اینڈ گیس لمیٹڈ کے نام سے ایک کمپنی رجسٹرڈ کرائی، ایئر فورس کے سابق چیف عباس خٹک  کے دو بیٹوں احد خٹک اور عمر خٹک نے 2010ء میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک کمپنی رجسٹرڈ کروائی، لیفٹیننٹ کرنل (ر) راجہ نادر پرویز کے نام پر انٹرنیشنل فنانس اینڈ ایکوپمنٹ کے نام سے ایک آف شور کمپنی ہے، راجہ نادر پرویز وفاقی وزیر رہے ہیں، سابق کور کمانڈر کوئٹہ طارق پرویز کے کزن ہیں اور ان کے درمیان سالہ اور بہنوئی کا رشتہ بھی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے بیٹے کی بھی آف شور کمپنی ہے، یاد رہے کہ ان پر سٹاک ایکسچینج میں تین ارب روپے کی خرد برد کا الزام بھی لگا تھا ، مقدمہ  درج ہوا تھا مگر تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں، نواز شریف نے سنیئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل(ر) علی قلی خان کی جگہ جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا، انہی لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی ہمشیرہ کی بھی آف شور کمپنی سامنے آئی ہے، یہ جنرل حبیب اللہ خٹک کی صاحبزادی ہیں جو ایوب خان کے دور میں بڑے بااثر تھے اور ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب کی شادی حبیب اللہ خٹک کی صاحبزادی کے ساتھ ہوئی تھی۔ 
پینڈورا لیکس میں عمران خان کے قریبی ساتھی بھی بے نقاب ہوئے ہیںمگرموجودہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین سب پر سبقت لے گئے ہیںا ور انہیں پینڈورا لیکس کا مین آف دی میچ قرار  دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہو گا جن کی 4آف شور کمپنیاں ہیں جو ان کی اہلیہ ، بھابی اور دیگر اہل خانہ کے نام پر سامنے آئی ہیں۔مخدوم خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار نے2018ء  میں لندن میں 1ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ اپنی والدہ کے نام پر منتقل کیا، نیب میں خسرو برادران کیخلاف تحقیقات کئی سالوں سے جاری ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے، عمران خان کے سابق مشیر برائے فنانس اینڈ ریونیو وقار مسعود خان کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنی سامنے آئی ہے، سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی یو کے پراپرٹی کے نام سے آف شور کمپنی سامنے آئی ہے، حکومت کے اتحادی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کی کمپنی بھی سامنے آئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کی بھی آف شور کمپنی سامنے آئی ہے۔ 
جاتے  جاتے آپ کو پینڈورا لیکس کا سب سے بڑا لطیفہ بھی سناتے جائیں، پینڈورا لیکس کے بے تاج بادشاہ شوکت ترین کی سب سے زیادہ 4آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں جنہوں نے عمران خان کی ہدایت پر ایف بی آر کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ پاکستان کے جن 700افراد کے نام لیکس میں آئے ہیں ان کیخلاف غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں۔خالد عرفان نے کہا تھا
میں کرپشن کی فضیلت کو کہاں سمجھا تھا
بحر ظلمات کو چھوٹا سا کنواں سمجھا تھا