سب کو اندازہ تھا پنڈورا پیپرز کے انکشافات کسی بھی بڑی گردن پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے… کہا جا رہا ہے عمران خان کا ان میں نام نہیں… نام تو نوازشریف کا پانامہ پیپرز میں بھی نہیں آیا تھا ان کے بیٹوں کا تھا… عمران خان کی بھی لاہور میں رہائش گاہ 2 زمان پارک کا ذکر ہے نام کسی فرید صاحب کا ہے جنہیں آج سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بھی وہاں بستے ہیں… وہ کون ہیں یا کس کے فرنٹ مین ہیں اس بات کی تحقیق کیوں نہیں کی جا رہی… نوازشریف کا اصل جرم یہ تھا آئینی لحاظ سے ماتحت اداروں کاتابع فرمان بن کر کارہائے حکومت سرانجام نہیں دیتا تھا… عمران خان کا سر تسلیم خم رہتا ہے لہٰذا اس کے 2 زمان پارک والے رہائشی پتے کے علاوہ ایک دو نہیں نصف درجن کے قریب سینئر وزراء کے نام ملوث پائے گئے ہیں مگر کوئی ’’جے آئی ٹی‘‘ نہیں بنی جس میں خصوصی اختیارات کے حامل بارعب بریگیڈیئر حضرات کو شامل کیا گیا ہو… کسی نوعیت کا جوڈیشل کمیشن قائم نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی نگرانی میں ایک کمیشن ضرور وجود میں آئے گا جس کے ’’ٹی او آرز‘‘ طے پانے ہیں وہ کس کا مواخذہ کرے گا ، کس کو سزاوار ٹھہرائے گا، اتنے اہم اور سینئر وزراء میں سے کس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، کسی کو علم نہیں… لوگ کہتے ہیں اس کمیشن کا انجام بھی وہی ہو گا جو چینی مافیا، گندم مافیا اور عمران خان بہادر کو پہلے تین سالوں میں طشت ازبام ہونے والے دوسرے سکینڈلوں کا ہوا ہے اگرچہ ان کی بدولت مہنگائی اتنی بڑھی ہے، پٹرول کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں، بیروزگاری نے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے کہ عام آدمی کے لیے قیامت کا سماں ہے… خود حکومت کے حامی لوگ اور وزیراعظم کے عام ووٹر العطش العطش پکارنے پر مجبور ہیں مگر حکومت کے کسی اہم رکن کا چاہے اس طرح کے ایک دو اور پنڈورا بکس آ جائیں بال بیکا نہیں ہونے کا… شیخ رشید نے ان انکشافات کا تمسخر اڑاتے ہوئے بلا وجہ نہیں کہا کھودا پہاڑ نکلا چوہا… راولپنڈی کے مشہور گیٹ نمبر4 کے اس جانب کے اسرارورموز کو سمجھنے والے اس پیرِمغاں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کہاں سے کیا اشارہ ملتا ہے تو قصور نہ بھی ہو تو حکومتیں الٹا کر رکھ دی جاتی ہیں بصورت دیگر سو قتل بھی معاف ہو جاتے ہیں… برطانوی اخبار Financial Times میں کوئی ڈیڑھ ہفتہ قبل شائع ہونے والی سٹوری جس کا ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی چرچا ہوا ہے، بتاتی ہے کہ دونوں ابھی تک ایک پیج پر ہیں۔ ’سیاں ہوئے کوتوال ڈر کس بات کا‘… بات چھڑی تھی کہ نوازشریف کو معتوب اور گردن زدنی باوجود اس کے کہ پانامہ پیپرز میں اس کا نام نہیں تھا اس لیے ٹھہرایا گیا کہ ماتحت بن کر نہیں رہتا تھا۔ حکم بجا نہیں لاتا تھا اسے مجرم ٹھہرانے کی خاطر اعلیٰ تر عدالتی سطح پر جو پاپڑ بیلے گئے ان کی تفصیلات جاننا مقصود ہو تو دو دن پہلے مریم نواز نے اپنے نئے وکیل عرفان قادر کے ذریعے ایوان فیلڈ مقدمہ کی سزا پر نظرثانی کے لیے جو اپیل دائر کی ہے اس کا متن اور تفصیلات اخبارات میں چھپ گیا ہے ملاحظہ فرما لیجیے… ایک نگاہ ڈالنے سے بہت کچھ معلوم ہو جائے گا… اس ضمن میں کل بروز بدھ مریم بی بی نے احاطہ عدالت کے باہر کھڑی ہو کر دھواں دار پریس کانفرنس میں جس طرح نام لے کر الزامات عائد کیے ہیں اور بعض نہایت درجہ حساس عہدیداروں کو 2018 کے انتخابات میں نوازشریف کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایاہے اور یہ کہ اس مملکتِ خداداد میں مرضی کے عدالتی فیصلے حاصل کرنے کے لیے ججوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جاتا ہے اسے سامنے رکھیے تو شیکسپیئر کایہ قول ہمارے بارے میں بھی اپنی صداقت آشکار کرتا ہوا نظر آئے گا۔
Something is Rotten in state of Denmark.
وہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سیڑھی سے ایسا سیڑھا کہ سیڑھتا ہی چلا گیا یہی عالم ہمارے یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی کا ہے۔ نیب کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد جس طرح آئین اور قنون ک مٹی پلید کی جا رہی ہے وہ ننگی آنکھ کو بھی نظر آتا ہے مگر بالائی طبقات سے لے کر حکومت کے عام ایوانوں تک کسی کو اس کی پرواہ نہیں اس لئے اگر دوسرے بڑے معاملات پر آئینی ضوابط اور قانونی قواعد کو رگید کر رکھ دیا جاتا ہے تو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال تو ان سب کے محبوب نظر ہیں۔ مخالف سیاستدانوں کے خلاف ایسے ایسے مقدمات تیار کرتے ہیں اور کارروائیاں جاری رکھی جاتی ہیں کہ شاید مہذب جمہوری دنیا کا کوئی دوسرا ملک مثال پیش کرنے سے قاصر ہے… اسی لیے سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جاوید اقبال کو عہدے پر برقرار رکھنا لازمی سمجھا جا رہا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو ان جیسا رگڑا دینا اور کوئی نہیں جانتا چاہے ثبوت ایک الزام کا بھی کہیں سے مل نہ پائے… جسٹس (ر) جاوید اقبال کو جس قانون کے تحت سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ یا ان کے ہاتھوں سے نوتشکیل شدہ احتساب کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا اس کی مدت ملازمت میں اسی کمیشن کو وجود میں لانے والے آرڈیننس کے تحت توسیع نہیں کی جا سکتی کہ یہ نیب کا باقاعدہ قانون ہے کسی کی من پسند تشریح نہیں… نئے چیئرمین کو مقرر کرنے کی خاطر قانوناً لازم ہے قائدِ ایوان (وزیراعظم) منتخب پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف سے باقاعدہ اور سپریم کورٹ کے ایک تشریحی حکم کے تحت بامعنی اور نتیجہ خیز مشاورت کرے مگر وزیراعظم بہادر تکبر اور نخوت کی جن کیفیات سے مغلوب نظر آتے ہیں ان کے تحت موصوف کی موجودہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے ساتھ کسی طرح کے براہ راست مذاکرات کرنا انہیں منظور خاطر نہیں… عذر یہ پیش کیا جا رہا ہے وہ کرپٹ ہیں اس لئے وزیراعظم بہادر شریف برادران میں سے کسی کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کو تیار نہیں… مذاکرات تو دور کی بات ہے… اس پر بہت لے دے ہوئی ہے… پوری کی پوری حزب اختلاف کے جملہ قائدین بول اٹھے… میڈیا پر چیخ و پکار شروع ہو گئی کہ شہباز شریف کے خلاف ایک مقدمہ کا ناقابل ِتردید ثبول مل پایا ہے نہ سزا ہوئی ہے… وہ ملزم یقینا ہو گا مجرم ہرگز نہیں… اور الزام تو آپ کسی پر بھی لگا کر اسے اپنی نگاہوں میں راندہ درگاہ بنا سکتے ہیں، مگر لندن کی عدالت نے حال ہی میں اسے اور اس کے بیٹے سلمان کو بے قصور قرار دیا ہے… لندن کی بات چھوڑیے پاکستان میں واپس آیئے نیب ہی کے مقدمات میں عمران خان اور ان کی حکومت کے کئی افراد کے خلاف مقدمات کی فائلیں دھری پڑی ہیں جنہیں معلوم نہیں کون سی مصلحت کے تحت چھیڑا نہیں جا رہا… چیف الیکشن کمشنر کے پاس فارن فنڈنگ کیس معرض التوا میں پڑا ہوا ہے… جو لوگ اس کی تفصیلات سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے جس دن اس مقدمے پر فیصلے نے دن کی روشنی دیکھ لی تو عمران بہادر کی وزارت عظمیٰ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دے گی… اس تناظر میں اگر کوئی محض الزام لگانے سے ہی کرپٹ بن جاتا ہے تو حکومت کے اندر تو مہا کرپٹ بیٹھے ہوئے ہیں…
یہ حقائق شہباز شریف کو کرپٹ بتانے والوں کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے کافی ہیں… اسی امر نے حکومت والوں کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے… نیا آرڈیننس کے تیار ہونے کی خبریں ہیں جس کے تحت موجودہ چیئرمین مسمی جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں وقتی طور پر توسیع دی جائے گی اس کے ساتھ ہی حکومت والوں کے دو منہ بن گئے… ایک وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم صاحب کا، جنہوں نے کہا کہ وزیراعظم قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کریں گے اگرچہ تحریری ہو گی اور اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو معاملہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے پاس جائے گا… دوسرے منہ سے وزیراعظم بہادر کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری بولے ہیں ہم چور سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ بتائے کہ اس کا تفتیشی کون ہو گا یعنی قانون اور متعلقہ ضوابط کو اس حد تک رسوا کرنے کے باوجود حکومت پس و پیش میں مبتلا ہے کہ کون سی راہ اختیار کرے گی… پھر یوں ہوا کہ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر قلابازی لی… کل بدھ کے روز اپنے ہی وزیر قانون کے بیان پر خط تنسیخ پھیر دیا… گویا ہوئے وہ ہرگز شہباز سے مشاورت نہیں کریں گے… اس کے بعد پریشانی کے عالم میں ہر دو وزراء کو مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اپنے اپنے بیانات کی ایسی بے معنی توجیح پیش کرنا پڑی کہ پارلیمانی جمہوریت کو سمجھنے والے حیران ہیں کہ روئیں جگر کو یا پیٹیں سر کو… سب سے اہم سوال مگر یہ ہے حکومت اور اس کے اعیان کو اچانک تو معلوم نہیں ہوا کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت کب ختم ہو جائے گی اور وہ ناقابل توسیع بھی ہے… یوں عین آخری لمحے پر آ کر نئے صدارتی آرڈیننس کے قانونی عجوبے کے ذریعے اہل وطن کو سندیسہ دیا جا رہا ہے کہ وقتی طور پر موجودہ چیئرمین کو برقرار رکھا جائے گا… آخر کس وجہ کی بنا پر اور کون سے ضابطے کے تحت بلاوجہ تاخیر کی گئی کیا یہ ہے قانون کی وہ حکمرانی جس کا عمران خان بہادر اٹھتے بیٹھتے اپنی تقریروں میں ذکر کرتے نہیں تھکتے اور کہتے ہیں ملک کواصل مسئلہ ہی یہ درپیش ہے کہ بڑے اور طاقتور لوگوں کے لیے ایک قانون اور کمزور افراد کے لیے دوسرا… اسی حوالے سے ان کے قول اور فعل کا اتنا بڑا تضاد سامنے آیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے تصورات کی رہی سہی بیخ کنی کر کے رکھ دی گئی ہے… ان کی ساکھ جو برباد ہونی تھی وہ تو ہوئی مگر موجودہ حکمرانوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے عمل و کردار کی جو درگت بنتی نظر آ رہی ہے اس کا کوئی حال باقی نہیں رہا دو سال رہ گئے ہیں دیکھیے اہل وطن کو مزید کس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے…