کابل: افغان طالبان کی عبوری حکومت کے آتے ہی افغانستان مسائل کا شکار ہونے لگا، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر افغانستان اندھیرے میں ڈوب سکتا ہے جس کے بعد موسمِ سرما میں عام افغانیوں کی زندگی مزید سخت ہو سکتی ہے۔
الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کی مطابق افغانستان کی ریاستی پاور کمپنی نے افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن سے 90 ملین ڈالر امداد کی درخواست کی ہے تاکہ وہ بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے قبل وسط ایشیائی ممالک کو ان کے بل ادا کر سکے کیوںکہ ان ممالک کی جانب سے بلوں کی ادائیگی کے لیے دی گئی 3 ماہ مہلت کی مدت گزر چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست کے وسط سے طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پڑوسی ممالک کو بلوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے، جو افغانستان میں بجلی کی 78 فیصد تک طلب پوری کرتے ہیں۔ جس کا اہم سبب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ملک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کرنے کی وجہ سے ملک میں جاری معاشی بحران ہے۔
افغانستان کی ریاستی پاور کمپنی دا افغانستان برشنا شرکت کے قائم مقام سی ای او سیف اللہ احمد زئی نے الجزیرہ کو بتایا کہ افغانستان وسط ایشیائی ممالک ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کو بجلی کی مد میں مجموعی طور پر ماہانہ 20 سے 25 ملین ڈالر کی ادائیگی کرتا ہے، لیکن تین ماہ سے عدم ادائیگی پر یہ رقم 62 ملین ڈالر پر پہنچ گئی ہے، اور یہ ممالک کسی بھی دن افغانستان کو بجلی کی فراہمی بند کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے افغانستان میں یونائیٹڈ نیشن اسسسٹینس مشن (یو این اے ایم اے) سے انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرنے کی درخواست کی ہے، ہم نے ملک میں بجلی کی فراہمی کو جاری رکھنے کے لیے مشن سے 90 ملین ڈالر امداد طلب کی ہے کیوں کہ اس ہفتے کے آخر تک یہ رقم بڑھ کر 85 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ تاہم یو این اے ایم اے نے ابھی تک ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔ احمد زئی کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان میں 38 فیصد عوام کو بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ افغستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول کا حصہ ہے اور امریکی دور حکومت میں بھی ملک میں بجلی کی قلت کا سامنا تھا، جس کا الزام طالبان کی جانب سے ٹرانسمیشن لائینوں پر حملے کو قرار دیا جاتا تھا۔
افغانستان میں بجلی کی سالانہ طلب تقریبا 16 سو میگا واٹ ہے، تاہم ہائیڈرو پاور پلانٹس، سولر پینلز اور رکازی ایندھن سے ملکی ضروریات کا صرف 22 فیصد ہی پورا ہوتا ہے۔