سابق وزیراعظم عمران خان نے صحتمند ہوتے ہی احتجاجی تحریک شروع کرنے کاعندیہ دیا ہے اورکہا ہے کہ مجھے پتا تھا کہ وزیر آباد یا گجرات میں مجھ سلمان تاثیر کی طرح قتل کروانے کا منصوبہ بنایا گیا۔انہوں نے حملے کووزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اورایک حاضرانٹیلی جنس آفیسرکی منصوبہ بندی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ 3لوگ مستعفی نہیں ہونگے تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ جوابا پاکستانی فوج کی جانب سے بیانات کو غیرذمہ دارانہ الزامات قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی گئی۔آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت عمران کے جھوٹے الزامات پر قانونی کارروائی کرے،اورکسی کوادارے کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ فوج کا اپنا اندرونی احتسابی نظام موجود ہے۔ادارہ اپنے افسران اور جوانوں کی حفاظت کرے گا۔عمران خان پر حملے کی خبرنے پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں جگہ لی۔عالمی میڈیا نے لکھا کہ پاکستانی سیاست میں انتشار مزید گہرا ہوگا، ہمسایہ ملک پاکستان میں افراتفری پر سکھ کا سانس لے رہا، پاکستان کی سیاسی کشمکش اور ہنگامہ آرائی سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ انتہائی خوش نظر آرہی ہے۔اس صورتحال پر انڈین میڈیا اسے اچھی خبر قرار دے رہے ہیں۔عمران خان پر قاتلانہ حملے نے نہ صرف پاکستان کو مزید گہرے انتشار میں ڈال دیا ہے بلکہ ہندوستان کیلئے نئے اسٹریٹجک عوامل کوجنم دیا جن میں پاکستان کی طاقتور فوجی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل سے لے کر اسکے سیاسی استحکام شامل ہے۔ نئی دہلی خوش ہے کہ اندرونی لڑائی نے پاکستانی فوج کے ڈھانچے کو کمزورکیاہے، کیونکہ جب پاک فوج اندرونی انتشار پر قابو میں مصروف ہوگی تو اس سے ان کا بھارتی سرحدوں سے دھیان بٹ جائے گا۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے دونوں خطرناک رخ اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر عمران خان پر حملہ بڑھتے ہوئے اختلاف، فوج اور سیاسی سطح پر تقسیم کو اجاگر کرتی ہیں۔حملے سے متعلق سوالات اس حقیقت کی بنیاد پر اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ صوبہ پنجاب میں ہوا جہاں پی ٹی آئی خودحکمران ہے۔
فوج کے خلاف حالیہ مظاہرے تاریخ میں ایساپہلی بارہے کہ، پاک فوج کے کور کمانڈر پشاور کے گھر کے باہر احتجاج کیا گیا۔ حملے کے بعد خان کی زبردست مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، جس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم اور حکومت کو مؤثر طریقے سے مفلوج کیا۔ وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف ہونے کے بعد سے، عمران خان نے طاقتور ادارے کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک پرخطر مہم کا آغاز کیا ہے۔ یہ حملہ ایک وارننگ شاٹ لگتا ہے، جوپاکستان کی سیاست کو مزید غیر مستحکم کرے گااورسیاسی ومعاشی ابتری پہلے سے مزید بگڑ جائے گی کیونکہ آج پاکستانی سیاست کی ساکھ سب سے نیچے پہنچ چکی ہے۔ یہ حملہ ملک بھر میں مزید سیاسی تشدد کا سبب بنے گا،عوام کو معاشی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عمران خان کے حامیوں میں غصہ ہے، جو پھر اسے اسٹیبلشمنٹ پر نکالنے کی کوشش کریں گے۔ خان نے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نہیں دکھائے وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، شوٹنگ سے صرف طاقتور حکام پر حملے تیز ہونے کا امکان ہے جن پر وہ اپنی معزولی کا الزام لگاتے ہیں۔ انہیں کئی قانونی مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں آئندہ انتخابات کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جا سکتا ہے۔ اب سوالات اٹھیں گے کہ کیا موجودہ حالات میں آرمی چیف جنرل باجوہ کو 29 نومبر کوعہدہ چھوڑنے کی اجازت دی جانی چاہیے جب ملک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ اگر جنرل باجوہ اب آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے اگلے چیئرمین جائنٹ چیف آف اسٹاف بننے کے امکانات ہیں عاصم منیر اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے جب عمران وزیر اعظم تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی رپورٹس نے عمران کو ناراض کیا تھا، اس لیے موجودہ حکومت ان پر بھی غور کر سکتی ہے۔ پاکستانی فوج ایسی صورتحال نہیں چاہے گی جہاں اسے بڑی تعداد میں لوگوں سے طاقت کے ساتھ نمٹنا پڑے۔ لہٰذا اگر احتجاج بڑھتا ہے، تو فوج حکومت کوعمران خان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
بدامنی فوج کیلئے حساس ہے،خان کی فوجی ترقیوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں پاکستان کے حالیہ سیاسی تناؤ کی بنیاد بنی ہیں۔عمران خان کااینٹی اسٹیبلشمنٹ اورامریکہ مخالف بیانیہ مؤثر طریقے سے ہجوم کو اپنے حق میں کھینچ رہا ہے۔ اگر اگلے دو مہینوں میں انتخابات ہوتے ہیں تو امکان ہے کہ خان کو حکومت بنانے کیلئے کافی نشستیں حاصل ہوں گی۔اگرچہ خان دوبارہ اقتدار سنبھالنے کی صورت میں ایک نیا فوجی سربراہ مقرر کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، لیکن ایسا اقدام خطرناک ہے۔خان یقینی طور پر اس سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کتنا پائیدار ہوگا اور کیا صورتحال مزید پرتشدد ہو جائے گی۔عمران خان پر حملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور پرتشدد لمحہ ہے۔1951میں اپنے پہلے وزیر اعظم کے قتل کے بعد سے، ملک سفاکانہ فرقہ وارانہ تنازعات اور قتل و غارت کی لہروں کا شکار ہے۔یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کس طرح تشدد سے الگ نہیں ہے۔ بے نظیر کی موت نے پوری دنیا میں صدمے کی لہریں بھیجیں اورپاکستانی حکام پر شدید تنقید کی،جو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے تھے، اسکے قاتل تاحال نامعلوم ہیں۔اب سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک سیاسی ریلی میں گولی مار دی گئی،تو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے ہنگامے کو یاد کرنا مشکل تھا۔ ان کی موت سے پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان طویل سیاسی استحکام کی طرف گامزن ہے۔ اس کے قتل کے بعد سے، اس استحکام کو حاصل کرنا مشکل لگتا ہے۔ خان پر حملہ برسوں تک سیاسی توازن کو بگاڑ کر رکھے گا۔ان کے حامیوں نے پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کو پارلیمنٹ میں خان کی کھوئی ہوئی اکثریت کا ذمہ دارٹھہرایا، ان کے لیڈر پر حملہ ان کے غصے کو مستقل ناراضگی میں بدلنے کا سبب بن سکتا ہے۔پاکستان معاشی بحران،غیر پیداواری معیشت،سیلاب، موسمیاتی تبدیلی کے بعد کے اثرات سے دوچارہے -پاکستان کا ماضی بتاتا ہے کہ شاید کبھی حقیقت کا پتہ نہ چل سکے، عمران خان پر حملہ پاکستان کیلئے تب تک آخری بحران نہیں ہو سکتا جب تک سول ملٹری عدم توازن اپنی خرابی کودورنہیں کرلیتا۔ عمران خان کا فوج وامریکہ مخالف بیانیہ اورپرانے سیاستدانوں کی بدعنوانی کو ختم کرنے نعرہ مسلسل قدم جما رہا ہے۔ خان پر حملے نے فالٹ لائنز کو گہرا کر دیا، خرابی کی جگہ کھل سکتی ہے عمران خان کیلئے سیاسی رفتار کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور وہ اس واقعے کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں،اور مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس سے پاکستان آنے والے دنوں میں مزید انتشار دیکھ سکتا ہے۔ان حالات میں پاک فوج بجا طور پرانتہائی پیشہ وراورنظم وضبط کی حامل ہونے پر فخرکرتی ہے،جس کا مضبوط، انتہائی مؤثر اندرونی احتسابی نظام موجود ہے جو ہر وردی پہننے والے پر لاگو ہوتا ہے،لیکن اگر ادارے کے جوانوں اورافسران کی عزت، سلامتی اور وقار کو بدنیتی سے بلا ثبوت الزام تراشیوں سے نشانہ بنایا جائے گا تویقیناادارہ اپنے افسران اور جوانوں کی عزت کی ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔