سیاسی فضاء بہت زیادہ آلودہ ہو چکی ہے،محاذ آرائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،فریقین میں سے کوئی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں نتیجے میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس سے دانستہ گریز ہی نہ صرف دانشمندی بلکہ حب الوطنی بھی ہے۔بلا شبہ عمران خان گزشتہ الیکشن میں ایک مقبول عوامی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے،قوم کا وہ طبقہ جسے سیاست سے کبھی دلچسپی نہیں رہی وہ بھی عمران خان کے شانہ بشانہ نظر آیا، کرپشن کیخلاف بیانیہ نے ہر مکتب فکر کو متاثر کیا اور ملک کے اکثریتی ووٹرز نے ان کو آزمودہ سیاستدانوں پر ترجیح دی،تحریک انصاف کی حکومت کے بعد ہونے والے ضمنی الیکشن سے معلوم ہواکہ ابھی عمرانی طلسم عوام کے ذہن پر چھایا ہواہے جس کا ثبوت صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پرہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی بھاری اکثریت سے کامیابی ہے،عمران خان نے اپنے اقتدار کے دنوں میں خبردار کیا تھا کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ہوں گے،ضمنی الیکشن کے نتائج نے ان کی بات کو سچ ثابت کر دکھایا،بلا شبہ اس وقت عمران خان ملک کے مقبول تریں سیاسی رہنما ہیں،لیکن وہ اپنی مقبولیت کے بوجھ تلے دبتے دکھائی دے رہے ہیں،معلوم نہیں ان کے مشیرکون ہیں جنہوں نے ان کو کرپٹ عناصر کیساتھ ریاستی اداروں خاص طور پر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ادارہ سے محاذ آرائی کا مشورہ دیا ہے،اس بات سے انکار نہیں کہ عمران خان اس وقت سیاسی کارکنوں اور عوام کی جان ہیں مگر جس ادارہ سے وہ آمنے سامنے ہو رہے ہیں وہ عوام کی آن ملک کی شان اور ملک وقوم کے نگہبان ہے،اگر چہ اس ادارہ پر تنقید ہر دور میں فیشن رہی،کسی دور میں یہ ادارہ کیمونزم نواز وں کی زد پر تھا،پھر سیاستدانوں نے اسے تختہ مشق بنایا اور اب امریکہ نواز قومی نیو کلیئر اور میزائل پروگرام کے مخالف ممالک کے دیہاڑی دار اور پاک فوج سے خوفزدہ بھارت اور اسرائیل کے ایماپر یہ سلسلہ جاری تھا کہ اچانک اس اہم اور حساس ادارہ کو سیاست میں گھسیٹ لیا گیا۔
ملکی سیاسی تاریخ اس قدر طویل نہیں جو قصہ پارینہ بن سکے،صرف پون صدی پر مشتمل یہ تاریخ سیاسی کارکنوں کو ازبر ہے،یہ بد قسمتی ہے یا اس ادارہ کی فراخدلی کہ ملک کے وسیع ترین مفاد میں اس ادارہ نے ان کو بھی گلے لگایا جو اس کے بد ترین ناقد تھے،انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کے عوام اور محافظ ادارہ میں اعتماد کا رشتہ قائم نہ رہے اس کا دفاع کمزور ہو جاتا ہے،اس مقصد کیلئے ہر دور میں ملک کے اندر سے ففتھ کالمسٹ تلاش کئے جاتے ہیں،اس کے باوجود یہ ادارہ ہر دور میں ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سمجھوتے کرتا اور درمیانی راستے تلاش کرتا رہا،ایوب خان کی کابینہ کے اہم رکن ذوالفقار بھٹو نے جب علم بغاوت بلند کیا تو ملک معاشی بحران اور اندرونی خلفشار کا شکار تھا،مشرقی بازو میں انتشار اور انارکی کی کیفیت تھی،ایوب خان معاملہ فہم تھے جب دیکھا کہ حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر کے گھر بیٹھ گئے،سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹو کو اقتدار دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا تب اس ادارہ نے بھٹو کی ہر طرح اخلاقی مدد کی،مگر بھٹو نے ابتدا میں ہی کچھ جرنیلوں کو سبکدوش کر کے اپنے عزائم عیاں کر دئیے، ٹکا خان نے ان کو بیساکھی دی،مگر جب ان کے زوال کا آغاز ہواتو اسی ادارہ کے خلاف زہر افشانی شروع کر دی،ضیاء الحق نے نواز شریف کو نہ صرف اپنی نرسری میں پالا پوسا بلکہ ان کی ہر طرح سے آبیاری کی، ضیاء الحق کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو راج دلارا بنائے رکھا مگر وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی وہ جنرل اسلم بیگ،بعد میں آصف جنجوعہ سے محاذ کھول کر بیٹھ گئے،صدر غلام اسحٰق اور فاروق لغاری سے بھڑے،چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملہ آور ہوئے اس کے باوجود بینظیر کے مقابلے میں پسندیدہ رہے،آخر کار جنرل مشرف کو اس وقت سبکدوش کر دیا جب وہ سری لنکا کے سرکاری دورہ سے واپسی پر فضاؤں میں تھے،عمران خان کو بھی اس ادارہ کی بھر پور تائید و حمایت حاصل تھی مگر اقتدار سے علیحدگی کے فوری بعد جب ان کو زباں ملی تو اسی ادارہ پر برس پڑے۔
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو پبلک میں نہیں کی جا سکتیں، عمران خان ایک جہاندیدہ، دانش مند بلکہ دانش ور انسان ہیں،مطالعہ بہت وسیع ہے اور وسیع المطالعہ لوگ اپنی زبان کو لاٹھی نہیں بناتے،راقم نے ہمیشہ عمران خان کی حمایت کی اور اب بھی سمجھتا ہے کہ عمران خان ملک و قوم کی ڈولتی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر انہوں نے اپنی توانائی اپنے ہی خلاف استعمال کرنا شروع کر دی،شاید وہ بے مثال عوامی پذیرائی کے ذریعے ملکی نظام کو یکسر تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں بہت اچھی بات مگر اس کیلئے ریاستی اداروں سے محاذآرائی کی ضرورت نہ تھی،عمران خان پر قاتلانہ حملہ غیر متوقع نہیں،جس تیزی سے وہ مقبولیت کی منازل طے کر رہے تھے اس سے زیادہ سرعت کیساتھ وہ اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے تھے،اب تو وہ اس ملک کے دفاع کے ضامن ادارہ کے افسروں پر ہی برس پڑے،چیف الیکشن کمشنر کی حد تک تو شائد یہ ٹھیک تھا مگر ملکی محافظوں سے یوں ٹکرانا کسی بھی طور مناسب نہیں،کم از کم وہ اتنا ہی دیکھ لیتے کہ آج آصف زرداری اور نواز شریف کے بھائی منظور نظر ہیں،جبکہ آصف زرداری،نواز شریف،مریم اور ن لیگ کے متعدد رہنمااس ادارہ کیخلاف زہر افشانی کرتے رہے،اب عمران خان کے بیانات کی بنیاد پر حکومت معاملات کو ایک الگ سمت دینے کی پالیسی پر گامزن ہے،13جماعتی اتحاد ووٹ کے ذریعے عمران خان کو شکست نہیں دے سکتا تھا،مگر اب محافظ ادارہ بھی ان کی الزا م تراشی کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے جس کے جواب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کارروائی کیلئے کمیشن تشکیل دیدیا ہے،دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ہے مگر آج تک عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر کا اندراج ممکن نہیں ہو سکا،تھانہ انچارج کسی کے قابو نہیں آرہا،نتیجے میں آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے،ایک مرتبہ پھر وہی تماشا شروع ہو گا جو بزدار دور میں ہوااور بیوروکریسی مشکلات سے دوچار رہی،یہ مگر لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ہائی پروفائل کیس کا مقدمہ درج نہیں ہو پا رہا،اس حوالے سے بھی تفتیش و تحقیق کی ضرورت ہے۔
عمران خان پر حملہ کی مذمت عسکری ادارہ کے ترجمان نے بھی کی اور اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا،مگر وہ ادارہ جس کے افسر اور جوان ہر سنگین صورتحال میں خدمت پر تیار رہتے ہیں اس پر الزام تراشی کے پیچھے بھی کوئی بڑی گیم ہے،عمران خان پر قاتلانہ حملہ،اس کے بعد پارہ پارہ قومی یکجہتی،عوام اور مسلح افواج میں خلیج ڈالنے کی کوشش ایک گہری سازش ہے،جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔