گزشتہ دنوں ملک کی تاریخ کا ایک افسوسناک اور انتہائی قابل مذمت واقعہ پیش آیا جب سابق وزیراعظم عمران خان قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے اور انہوں نے اس کی ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف وزیر داخلہ رانا ثنااللہ ایک سینئر فوجی افسر پر عائد کر دی اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا بھی کہا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد عمر نے عمران خان کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان تینوں لوگوں کو عہدے سے نہ ہٹایا گیا تو ہم ملک بھر میں احتجاج کریں گے اور ہم نے دیکھا کہ ملک گیر احتجاج کیا گیا سڑک بلاک کر دی گئی گورنر ہاؤس لاہور کے دروازے پر آگ لگا دی گئی۔ 3 نومبر بروز جمعرات گوجرانوالہ میں عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک معصوم شہری معظم جو کہ اپنے دو بچوں کے ساتھ شمولیت اختیار کیے ہوئے تھا جاں بحق ہو گیا، عمران خان اور دیگر رہنماؤں سمیت 7 افراد زخمی ہو گئے جس میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما فیصل جاوید بھی شامل تھی مگر سب سے اچھی بات یہ کہ سب رہنماؤں کی حالت خطرے سے باہر اور یہاں پر بھی ایک معصوم پاکستانی شہری کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔ پاکستان میں عوام حکمرانوں کے کیے ہوئے فیصلوں کو آج بھی بھگت رہے ہیں کبھی مہنگائی تو کبھی شہادت کی صورت میں قربانی دیتے ہیں۔ اس مارچ میں بھی ایک بے چارے عام شہری نے اپنی جان گنوا دی۔ دیکھا جائے تو جب سے عمران خان کا یہ مارچ شروع ہوا ہے تب سے لے کر اب تک تین لوگ اپنے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں۔ اس واقعہ کی صورتحال کچھ ایسی تھی کہ عمران خان کے کنٹینر کو گوجرانوالہ کے اللہ والا چوک میں پی ٹی آئی کے استقبالیہ کیمپ کے قریب ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ اچانک گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے اور پھر مزید فائرنگ ہوتی ہے کنٹینر پر موجود تمام راہنما نیچے کی جانب جھکتے دکھائی دیتے ہیں، کنٹینر پر موجود گارڈ نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کالے کوٹ میں ملبوس ایک شخص فائرنگ کر رہا ہے اور دوسرا اس کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گولی لگنے کے بعد بھی عمران خان کی ہمت کو داد دوں گی کہ وہ کارکنوں کو ہاتھ ہلا رہے تھے۔ اس کے بعد ان کو ہسپتال لے جایا گیا عمران خان پر فائرنگ کرنے والے نوید نامی شخص کی شناخت ہو چکی ہے جسے اسی وقت گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد پنجاب پولیس کی حراست میں ملزم کا ویڈیو بیان بھی سامنے آ گیا جس میں اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے جو چیز مجھ سے دیکھی نہیں گئی اور میں نے عمران خان کو مارنے کی پوری کوشش کی صرف اور صرف عمران خان کو اور کسی کو نہیں۔
جب ملزم کا یہ بیان سامنے آیا تو متعلقہ تھانے کے عملے کو وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے حکم پر معطل کر دیا گیا۔ ملزم کا کہنا تھا ایک طرف اذان ہو رہی ہوتی اور دوسری جانب لانگ مارچ میں اونچی آواز میں میوزک چل رہا ہوتا۔ ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ فیصلہ میں نے اسی دن کر لیا تھا جس دن انھوں نے مارچ کا آغاز کیا تھا۔ ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اکیلا ہوں میرے ساتھ اس واقعے میں کوئی بھی ملوث نہیں ہے۔ جس شخص نے اس ملزم کو قابو کرنے کی کوشش کی اس کے مطابق اس ملزم کا پستول آٹومیٹک تھا جب پستول پکڑا تو اس سے اس وقت بھی فائرنگ ہوتی رہی۔ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور فواد چودھری کے مطابق عمران خان پر حملہ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا، حملہ آور نے تحریک انصاف کے چیئرمین اور قیادت کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ یہ نائن ایم ایم پستول نہیں تھی یہ آٹومیٹک ہتھیار کا برسٹ تھا۔ دوسری جانب سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا کہ میں نے کل ہی احمد چٹھہ کو اس واقعہ کے حوالے سے بتا دیا تھا کہ وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے سو قاتلانہ حملہ ہو گیا، ایک کارکن شہید ہو گیا۔
اب یہ سوال آتا ہے کہ جب ہم اس سارے معاملے کو دیکھتے ہیں اگر پی ٹی آئی کی قیادت کے کچھ لوگوں کو پتہ تھا تو انہوں نے پنجاب گورنمنٹ اور وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے کہہ کر سکیورٹی کے انتظامات سخت سے سخت کیوں نہیں کرائے جبکہ پنجاب میں گورنمنٹ پی ٹی آئی کی ہے کیا عمران خان کے قافلے پر حملہ پنجاب گورنمنٹ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے یا کوئی پری پلان ہے۔
ہم پچھلے پانچ سال سے ملک میں فساد ہی فساد دیکھ رہے ہیں کبھی دھرنے تو کبھی مارچ، ان حکمرانوں کے ان ہی تماشے میں کتنے معصوم شہری جان کی بازی ہار گئے تو خدارا میرے ملک کے حکمرانو! اپوزیشن کو قبول کرنا سیکھو، بند کرو یہ خون خرابے۔