روشن خیال طبقہ کی خواہشات…

روشن خیال طبقہ کی خواہشات…

سماج کے ایک طبقہ کی پریشانی یہ بھی ہے، کہ قوم کی شامیں صرف کڑاہی گوشت تک ہی کیوں محدود ہیں،وہ اُس وقت کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں، جب کراچی اور لاہور کے نائٹ کلب آباد تھے، اُس وقت ملک کی بہترین ائیر لائن میں پینے پلانے کی سہولت بدرجہ اُتم موجود تھی،بقول اِنکے قائد کے زمانے میں جب اجلاس ہوا کرتے تھے تو قرآن کی تلاوت سے اس کا آغاز نہیں ہوتا تھا، ان کے خیال میں یہ تاریخ کا سنہری دور تھا،بانی پاکستان نے نارمل لوگوں کے لئے یہ ملک بنایا تھا جس میں ہر شخص کو  اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی تھی، اِن بیچاروں کو اس کے علاوہ بڑا غم تو اُس شخص کے جنم لینے کا ہے جس پر ملک میں اسلامی کلچر اور اسلامائیزیشن کو فروغ دینے کا الزام وہ عائد کرتے ہیں، جب تلک موصوف حیات رہے اِنکے سینے پر مونگ دلتے رہے، گیارہ سال تک بلا شرکت غیرے ڈنکے کی چوٹ پر باوردی حکمرانی کرتے رہے، لیکن اس قبیل  کے لوگ اُس وقت اس کا سامنا نہ کر سکے، جونہی ان کی آنکھیں بند ہوئیں۔ اِنکے سارے زخم تازہ ہو گئے ،اب ہر محفل میں اس مرحوم پر تبرہ بھیجنا لازم تصور کیا جاتا ہے۔
نجانے یہ طبقہ یہ کیوں بھول جاتا ہے ،مسٹر بھٹو نے جو اسلامی آئین اس ریاست کو دیاوہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور شریعت کے نفاذ کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔اس کے تحت شراب نوشی، جسم فروشی پر پابندی لگائی گئی اور دوسری معاشرتی برائیوں کے خاتمے کی بات کی گئی، سود کو بتدریج ختم کرنے کا کہا گیا ،جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کا اعلان ہوا، آئین میں لکھا گیا کہ ملک میں عربی پڑھانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ اس قماش کے لوگ اپنا غصہ قائد عوام کی بجائے باوردی آمر پر نکال کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں کیونکہ علماء کرام کے سامنے بھٹو کو سرنڈر کرنا پڑا، علماء اور سیاست کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ سیکولر لیڈرشپ نے علماء کو خوش کرنے کے لئے اِنکے تھوڑے بہت مطالبات مان لئے،تاکہ اِنکی حمایت حاصل کی جاسکے،انکی یہی کمزوری علماء کو آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوئی۔
قرار داد مقاصد ہی نے اسلامی آئین کی بنیاد فراہم کی بانی پاکستان کے دست راست لیاقت علی خاں نے جو پیش کی ، جس میں رقم ہے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اقتدار کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا اس کے مطابق عام شہری تمام حقوق کے حق دار قرار پائے،اقلیتوں کے حقوق بھی متعین کئے گئے،عدلیہ اور پریس کی آزادی کی ضمانت دی گئی۔
پھر نجانے روشن خیال سیاست اور دین کے جدا ہونے کے خبط میں مبتلا ہیں، علامہ اقبالؒ جنکی ساری حیاتی مغرب میں گذری اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہی فرمایا کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی، یہ طبقہ تو بانی پاکستان پر بھی الزام دھرتا ہے کہ وہ اس ریاست کو سیکولر بنانا چاہتے تھے، معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب مذکورہ میں لکھا کہ بانی پاکستان نے مختلف بیانات اورانٹرویوز میں واضع طور پر کہا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا۔
اس علمی بددیانتی کا جواب ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم جو تاریخ پاکستان پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں انھوں نے اپنی کتاب سچ تو یہ ہے میںدیا کہ قائد اعظم اس مملکت کو اسلامی جمہوری جدید ریاست بنانا چاہتے تھے اس لئے انھوں نے میلادالنبیؐ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، یکم جولائی1948کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ماہرین معیشت ومالیات سے پاکستانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کر نے کی نصیحت کی۔
جنہیں یہ خوش فہمی ہے کہ قائد کی زیر صدارت اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن سے نہیں ہوتا تھا اِنکی اطلاع کے عرض ہے کہ جب  پیر جماعت علی شاہ ؒنے قائد کو تحفہ میں قرآن، تسبیح، جائے نماز بھیجی تو بانی پاکستان نے شکریہ کا خط لکھا اور کہا کہ آپ نے قرآن اس لئے بھیجا کہ میں پڑھ کر اسکے احکامات جانوں اور نافذ کروں۔
ڈاکٹر صفدر محمود فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاںروشن خیالوں کے دو نمایاں گروہ ہیں،اول وہ جو اپنی روشن خیالی کو اسلامی حدود کا پابند سمجھتے ہیں، دوم وہ جو روشن خیالی ان حدود سے ماوراء سمجھتے ہیں،انکی روشن خیالی الحاد کی حدوں کو چھوتی ہے، یہی وہ طبقہ جس نے دل میں ایسی ہی خواہشات پال رکھی ہیں جن کا ذکر کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے،ان حضرات کے نزدیک ہم جنس پرستی، جنسی اورپینے پلانے کی آزادیوں کی راہ میں اصل رکاوٹ دین ہے، مذہب اور سیاست کو الگ الگ سمجھنے والے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے۔یہ لوگ دہشت گردی، فرقہ واریت کا تعلق اسلام سے جوڑ کر مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کراسے قومی اور سیاسی زندگی سے الگ کر تے ہیں جو کہ نا انصافی ہے۔
سماج میں جس طرح بچے، خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ،لاقانونیت، بے روزگاری، سماج میں بڑھتا ہوا اضطراب اس بات کی شہادت ہے کہ وہ تمام مغربی نظام جو یہاں عملاً رائج ہیں وہ برُی طرح ناکام ہوئے ہیں، نہ ہی سوشلزم انسانی دکھوں کا مداوہ کر سکا نہ ہی سرمایہ دارانہ سسٹم سے بھوک اور ننگ کے خاتمہ ممکن ہو سکا۔
قومی سطح پر نسل نو کی بے راہ روی دیکھ کر سرکارنے سیرت نبیؐ کے حوالہ سے اتھارٹی کے قیام کو لازم سمجھا ہے، تاکہ اس قوم کی کردار سازی کی جا سکے، روشن خیالی کی فکر میں غلطاں اس کو بھی مذہبی کارڈ کا نام دیتے ہیں، اب تو یہ عالم ہے اگر کوئی وزیر، مشیر اسلام کے حوالہ سے میڈیا پر اظہار خیال ہی کر دے تو اس پر بھی مذہب کے کارڈ کا ٹھپہ لگانے کی دانستہ کاوش کی جاتی ہے۔
سرکار اور تحریک لبیک کے مابین معاہدہ ہی  نے روشن خیالوں کے ہوش اڑا دئے ہیں، تاہم علماء کے ثالثی وفد نے مارچ میں شریک افراد کی رہائی کے لئے انھیں قانونی مراحل سے گذار کر آزاد کر نے کا درست اور بروقت فیصلہ کیا ہے، نجانے روشن خیال طبقہ اس وقت کہاں تھا جب تعلیم یافتہ شہر میں بھتہ نہ دینے پر بوری بند لاشیں ملا کرتی تھیں،اِسکی ہر تان صرف مذہبی جماعتوں کی مخالفت پر آکر ہی کیوںٹوٹتی ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ،مذہبی جماعتوں میں بھی ایک بڑی تعدادسیاست کو شجر ممنوعہ تصور کرتی ہے، آج عوام جن مشکلات سے دو چار ہے، لوگ خود کشیاں کر نے پر مجبورہیں تو مذہبی طبقہ خود کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا اگر تخت پر دین برا جمان ہوتا تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو آسودگی حاصل ہوتی، عدل و انصاف ہوتا، قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ یوں جاری نہ رہتی۔
المیہ تو یہ ہے قومی سیاست میں چند بڑے نامور سیاست دان جن کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہے اِنکے کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اگر یہ کہا جائے اِس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں بڑی رکاوٹ خود مذہبی طبقہ بھی ہے تو بے جا نہ ہوگا ، جو اسلامی دستور ہونے کے باوجود اس ملک کو اسلامی ریاست بنا کر دُنیا کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش نہ کر سکا۔