6اکتوبر کو نیب قوانین (آرڈیننس)میں دوسری ترمیم کا آرڈیننس جاری ہوا تو عام طور پر یہی سمجھا گیا کہ جناب عمران خان کی حکومت نے جہاں اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور قانون سازی میں اُنکا تعاون حاصل نہ کرپانے کی بنا پر اُ ن سے بے نیازی اور بے رخی کا اظہار کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے ذریعے نیب قوانین میں تبدیلی کیلئے قومی اسمبلی میں بل پیش کر کے قانون سازی کرنے کی بجائے بالا ، بالا نیب قوانین میں تبدیلی کا دوسرا آرڈیننس جاری کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ اس کے ساتھ کچھ ، کچھ یہ تاثر بھی اُبھرا یا سامنے لایا گیا کہ دوسری ترمیم کے آرڈیننس کے ذریعے حکومت شاید نیب قوانین میں پائے جانے والے بعض سقم بھی دور کرنا چاہتی ہے اور اسکے کے ساتھ نیب اور اسکے چیئرمین کو حاصل بے پناہ اختیارات کو کسی حد تک محدود کرنے اور بعض معاملات کو نیب کے دسترس سے باہر کرنے کی بھی خواہا ںہے ۔ کچھ ایسا ہوا کہ ایک طرف نیب قوانین میں چیئر مین نیب کو اپنی معیاد کی تکمیل سے قبل عہدے سے ہٹانے کے حوالے سے کوئی واضح طریقہ کار یا لائحہ عمل موجو د نہ ہونے کی صورت میں پائی جانے والی خامی یا سقم کو دور کرنے کی کوشش اسطرح کی گئی کہ نیب چیئرمین کو معیاد سے قبل ہٹانے کامعاملہ سپریم جوڈیشنل کونسل کے اختیار میں دے دیا گیا کہ وہ اس معاملے کو ایسے ہی دیکھے جیسے وہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف اگر کوئی معاملات یا کوئی ریفرنس پیش ہونے کی صورت میں دیکھتی ہے ۔ دوسری طرف دوسری ترمیم کے ذریعے نیب کے اختیارات میں اسطرح کمی لائی گئی یا اس کے دائرہ کار کے پھیلاوکو کم کیا گیا کہ منی لانڈرنگ ، اختیارات کے ناجائز استعمال سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات اور بعض صورتوں میں بدعنوانی کے معاملات کے تحت انکوائریاں اور تفتیش کرنے اور مقدمات وغیرہ قائم کرنے کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر کردیا گیا ۔ تاہم نیب قوانین میں ترمیم کے دوسرے آرڈیننس کے اجرا ء سے جوسب سے بڑا مقصد حکومت نے حاصل کیا وہ یہ کہ اس کے تحت صدرِ مملکت کو یہ اختیار مل گیا کہ انہوں نے موجودہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جنکی چار سالہ معیاد 8اکتوبر کو ختم ہورہی تھی ، انکے بطور چیئر مین نیب عہدے کے معیاد میں غیر معینہ مدت کیلئے توسیع کردی ۔
خیر یہ صورتحال نیب قوانین (آرڈیننس ) میں ترمیم کے دوسرے آرڈیننس کی تھی جو حکومت نے 6 اکتوبر کو جاری کیا۔ اس سے حکومت کو شاید تسلی نہ ہوئی یا عام خیال کے مطابق اُسے یہ گمان ہوا کہ اس وقت نیب جو بڑی حد تک حکومتی اشارہ ابرو پر انکوائریاں کرنے اور مقدمات قائم کرنے کی روش پر چل رہا ہے اور وزیراعظم کے مشیر احتساب بیرسٹرشہزاد اکبر کے نیب کے اعلیٰ احکام سے جو براہ راست راوبط ہیں ان میں کہیںکچھ رخنہ نہ پڑجائے۔ اسکے ساتھ حکومت کو یہ خدشہ بھی ہو ا کہ موجودہ دورِ حکومت میں بدعنوانی کے جو بڑے بڑے معاملات اور سیکنڈلز سامنے آئے ہیں اور جن پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ان میں آٹا اور چینی سیکنڈلز، پشاور میٹرو، ایل این جی اور مالم جبہ سیکنڈلز وغیرہ شامل ہیں ان پر نیب کہیں سخت ہاتھ ڈالنے کی راہ پر نہ چل پڑے ۔ اسی طرح حکومتی اکابرین کو شاید اس طرح کے خدشات بھی لاحق ہوئے کہ منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے معاملات اگر نیب کے دائرہ کار سے باہر کردیے گئے تو اپوزیشن راہنمائوں جناب آصف علی زرداری ، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور جناب شاہد خاقان عباسی وغیرہ کے خلاف قائم کردہ منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے تحت قائم کردہ مقدامات پر نیب کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی یا یہ معاملات اور مقدامات نیب کے دائرہ کارسے باہر ہوجائیںگے۔
کہا جاسکتا ہے کہ اس پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یکم نومبر کو نیب قوانین (آرڈیننس) میں ترمیم کا تیسرا آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ جس کے تحت پوری کوشش کی گئی ہے کہ ایک تو نیب کا کنڑول مکمل طور پر حکومتی اکابرین کی دسترس میں رہے اور دوسرا یہ کہ اپوزیشن راہنمائوں کے خلاف مقدمات بدستور نیب کے دائرہ اختیار میں رہیں اور انہیں کسی طرح کی ریلیف نہ مل سکے ۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم کا تیسرا آرڈیننس جو 6اکتوبر کو جاری کردہ دوسرے ترمیمی آرڈیننس کے صرف چوبیس، پچیس دن بعد یکم نومبر کو جاری کیا گیاہے اسکی تفصیل میں جائیں تو پہلی اور سب سے نمایاں بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم کوبالواسطہ طور پر چیئر مین نیب کو ہٹانے کا اختیار مل گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ دوسرے ترمیمی آرڈیننس کے تحت چیئر مین کو ہٹانے کا جو اختیار سپریم جوڈیشنل کونسل کو دیاگیا تھا وہ اس سے واپس لیکر صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے۔ صدر مملکت آئین کے تحت اس بات کے پابند ہیں کہ وہ وزیراعظم کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری یا ریفرنس کو مسترد نہیں کرسکتے ۔ گویا کہ وزیراعظم کی طرف سے چیئر مین نیب کے خلاف آنے والی سمری کو بنیاد بنا کر کسی بھی وقت چیئر مین نیب کواُن کے عہدے سے ہٹایاجا سکتا ہے ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ چیئرمین نیب مسلسل دبائو کا شکار رہیں گے یا اُن کے سر پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ سربراہ حکومت (وزیر اعظم ) کی ناراضگی کی صورت میں وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکیں گے ۔
نیب قوانین (آرڈیننس )میں تبدیلی کے تیسرے آرڈیننس کے تحت سامنے آنے والی یہ صورتحال یقیناخوش آئند نہیں اور نہ ہی عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے ۔ جس عہددار یا ادارے سے غیر جانبدارانہ اور انصاف کے اصولوں پر مبنی فیصلوں کی توقع رکھی جاتی ہے اُس کے سربراہ کو دبائو میں رکھنا یقینا قرین انصاف نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر جانبدار مبصرین اور ماہرین قانون نے پارلیمنٹ کے ذریعے مروجہ طریقہ کار اور اصول و ضوابط کے مطابق قانون سازی کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے نیب قوانین میں ترمیم کو نشانہ بنا یا ہے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے ذریعے نیب کو اپوزیشن تک توجہ مرکوز رکھنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔ اس ترمیم کوبعض حلقوں کی طرف سے سیاسی انتقام کا نام بھی دیا جارہا ہے ۔ سیاسی انتقام کایہ معاملہ کب سے نیب کے گلے میں پھنسی ، ہڈی بنا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتیں اپنے سامنے پیش ہونے والے نیب کے قائم کردہ مقدمات کے خلاف اپیلیں سنتے ہوئے نیب کے خلاف سخت ریمارکس دیتی رہی ہیں۔ یہ بات بھی کسی حد تک اپوزیشن کے خلا ف انتقامی حربے کی حیثیت رکھتی ہے کہ یکم نومبر کو جاری کردہ نیب قوانین (آرڈیننس )میں ترمیم کے تیسرے آرڈیننس کا اطلاق 6اکتوبر سے کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نیب کو حسب سابق تمام پرانے مقدامات جو 6اکتوبر کو جاری کردہ دوسرے نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ سے قبل اُس کے دائرہ اختیار میں تھے بدستور اُسکے دائرہ اختیار میں رہیں گے اوریہ مقدامات وہ ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اپوزیشن راہنمائوں سے ہے اور حکومتی راہنمائوں میں سے کسی کے خلاف بھی ایسے مقدمات نہیں چل رہے ہیں۔