پاک امریکہ پیار کی پینگیں

 پاک امریکہ پیار کی پینگیں

سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ایک بات جو اس وقت امریکہ سے آزادی کی کر رہے ہیںیہ بیشتر پاکستانی عوام کا پرانا مطالبہ ہے یہ علیحدہ بحث ہے کہ وہ  اس میں  اپنے مقاصد کا حصول چاہتے ہیں یاواقعی وہ پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اس بارے میں اللہ ہی جانتا ہے ان کے سابق نعرے اور بہت سے اقدامات اس بات کی گواہی دینے سے قاصر ہیں ۔ 
پاکستان پر اگر امریکی پنجوں کا اثر دیکھا جائے تو یہ کوئی آج کی بات نہیں یہ تو لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہو چکا تھا بعد ازاں آنے والے سیاستدانوں نے اسے آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا عمران خان بھی  اس میں شامل رہے اور سابق امریکی صدر سے ان کی پیار کی پینگیں سب کے سامنے ہیں ۔ بہرحال اگر  ماضی میں تاریخ کا جائزہ لیں تو  پتہ چلے گا کہ برطانیہ کے ہاتھوں ہندوستان کی آزادی کے عمل کا امریکا نے بھی خیر مقدم کیا تھا اور وہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ملکوں میں سے ایک تھا۔لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات شروع سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔امریکا نے پاکستان کو جب بھی مالی یا فوجی امداد دی اس کے پیچھے اس کے مفادات ہوتے ۔امریکی امداد کو حکمران اہم کامیابیاں قرار دیا کرتے،لیکن اس امداد کی پاکستان کو ہمیشہ بھاری قیمت چکانا پڑی اور بعض اوقات تو امریکا کا ساتھ دینے والوں یا مخالفت کرنے والوں کو خوف ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مئی 1950 میں سابق سوویت یونین کے طرف سے ماسکو کے دورے کی دعوت مسترد کر کے امریکی دعوت کو قبول کیا اور ان کے اسی عمل کو ملک کی امریکا کے ہاتھوں میں کھیلنے اور تباہ کرنے کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔1954میں سوویت یونین کے توسیعی عزائم پر تشویش کے باعث پاکستان اور امریکہ میں ایک دفاعی معاہدہ ہوا، جس کے تحت پاکستان کو 1953 سے لے کر 1961 تک 2 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی گئی،جس میں 50کروڑ80لاکھ ڈالر کی فوجی امدادبھی تھی،لیکن بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی 1962 کی جنگ میں اس وقت کے امریکی صدر کینیڈی نے چین کے خلاف بھارت کا بھرپور ساتھ دے کر پاکستان کے لئے سخت تشویش پیدا کی ۔1965 کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی، چین اس جنگ کے دوران بھارت کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر فوجیں لے آیا ،لیکن پاکستان کے دوست ملک امریکا نے اچانک پاکستان کی امداد اور فوجی تعاون یہ الزام لگا کر ختم کر دیا کہ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں روس کی طرف جھکائو بڑھا رہا ہے۔پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان نے دشمن کے مقابلے کے لیے اپنے دیرینہ اتحادی امریکہ سے ایک بار پھر مدد مانگی تو اس نے کہا کہ اس کا ساتواں بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو آرہا ہے ۔لیکن وہ جنگی بیڑا کبھی نہ پہنچ سکا اور جنگ کے پچیس برس بعد یہ انکشاف ہوا کہ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو طاقتور کر نا چاہتا تھا۔  
امریکی منافقت دیکھتے ہوئے پاکستان نے نئے اتحادی تلاش کرنا شروع کئے ،پاکستان میں کامیاب اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہوا ،بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے بھی اپنے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تو ذوالفقار علی بھٹو امریکا کو کھٹکنے لگے۔ امریکا نے محسوس کیا کہ پاکستان اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو اس کی ایجنسی سی آئی اے ایک بار پھر متحرک ہو گئی اور پاکستان کے معاملات میں مداخلت تیز کر دی۔1980 کے عشرے میں افغان جنگ میں سوویت یونین کو ہرانے کے لئے پاکستان کی مدد نا گزیر تھی،لیکن جونہی جنگ میں کامیابی مل گئی پاکستان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔پریسلر ترمیم کے ذریعے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں جب کہ بھٹو کو پھانسی دینے اور ضیا ء الحق کے طیارے کے حادثے میں بھی امریکی ہاتھ قرار دیا جاتا ہے۔ 
1947سے2000تک امریکہ نے پاکستان کو مجموعی طور پر صرف12ارب ڈالر کی امداددی۔ ضیا ء الحق،نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں زیادہ تر یہ امریکی امداد ملی ۔نائن الیون کے بعدامریکی ضرورت کے باعث ایک بار پھر پاکستان، امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بن گیا تھا اور امریکی کانگریس نے،ایٹمی دھماکوں اور پرویز مشرف کی بغاوت کے باعث معطل ہوجانے والی امداد بحال کر دی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کے بدلے میں پرویز مشرف کے دور میں 2002اور2003میں پاکستان کو1.5ارب ڈالر سے زائد کی امداد ملی اور بعد ازاں 2005میں بش نے5سال کے دوران3ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔کیونکہ اپنے مفادات کا سوال تھا اس لئے پاکستان کو 2004میں امریکہ نے نان نیٹو اتحادی بھی قرار دے دیا۔مجموعی طور پر پرویز مشرف دور میں 11 ارب ڈالر کی امریکی امداد دی گئی،جو کم نہیں ہے ،لیکن اس امداد سے پاکستان میں نہ تو امن و امان قائم ہو سکا،نہ ہی اس کی معیشت بہتر ہو ئی،نہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکا،نہ خود کش حملوں پر کنٹرول ہوا،نہ ہی ڈرون حملے بند ہو سکے اور نہ ہی خود مشرف اپنا اقتدار بچا سکے، اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی کو18 اگست 2008 کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ حقائق سے آگاہی کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے امریکی چاپلوسی کا سلسلہ جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ کی ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت ضرورت سے زیادہ  بڑھ گئی ۔ کبھی  بلیک واٹر،اور کبھی کیری لوگر بل کی صورت میں ملنے والی امداد کے ذریعے امریکا کا ہمارے سوشل سیکٹر میں بھی گھس آنا ،ان سب باتوں کے نتائج کیا ہوں گے ،اس طرف کبھی کسی نے توجہ نہیں دی ۔(جاری ہے)

مصنف کے بارے میں