عید سعید گذرنے کے بعد عوام یہ توقع رکھ رہی ہے کہ نئی حکومت اپنی اچھی گوورننس سے اسے وہ ریلیف دے گی جس سے وہ محروم چلے آ رہے ہیں، میڈیا کی وساطت سے تو معلوم ہوا ہے کہ سرکار سابقہ حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے متحرک ہوگی، چند گرفتاریوں کی بھی شنید ہے،اس سے قبل چند افراد کے خلاف سانحہ مقدس حجازکی بابت ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے، جب حکومت نے اقتدار سنبھالا تو وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی سیاسی انتقامی کاروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے قانون خود اپنا راستہ بنائے گا۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم اپنے پیروکاروں کو وفاقی دارالحکومت میں پڑائو ڈالنے کی کال دے چکے ہیں،یہ منظرنامہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ موجودہ سرکار بھی اسی ڈگر پر چل نکلے گی جس راہ پر سابقہ سرکار گامزن رہی ہے اور اس نے قوم کے ساڑھے تین سال محض الزام تراشی میں گذار دیئے، کسی شعبہ ہائے زندگی میں کوئی قابل ذکر ترقی کے آثار دکھائی نہیں دیئے، اگر موجودہ حکومت بھی ان کے نقش قدم پر چلتی رہی تو مایوسی کے سائے اور گہرے ہوتے جائیںگے، اگرچہ بقیہ پارلیمانی مدت چند ماہ پر مشتمل ہے لیکن عوام یہ توقع رکھتی ہے کہ موجودہ سرکار کچھ ان منٹ نقوش چھوڑ جائے جس کی روشنی میں آئندہ ترقی کا سفرجاری و ساری رہ سکے
وزیر اعظم نے نیشل اکنامک کونسل کی جو تجویز دی ہے وہ قابل تحسین ہے، تاہم جو دیرینہ مسائل عوام کو درپیش ہیں وہ فوری توجہ کے متقاضی ہیں، ان کے لیے کچھ پیرا میٹر طے کرنا ضروری ہیں، جس میں عام شہری کو ریلیف مل سکے، جن میں قابل ذکرتھانہ کلچر کی تبدیلی اور فوری انصاف کی فراہمی ہے، علاوہ ازیں اِس وقت جو اہم مسئلہ کسانوں کو درپیش ہے وہ پانی کی عدم فراہمی ہے، کل ہی سندھ میں کسانوں نے پانی کی کمی پر احتجاج کیا ہے ، پنجاب میں بھی صورت حال زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے نئی فصل کی کاشت کے موقع پر نہروں کی بندش کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔
کس قدرافسوک ناک بات ہے کہ ملک کی غالب آبادی جس کا تعلق زراعت سے ہے پانی اس کا بنیادی ایشو ہے اس کو حل کرنے کے لئے ماضی میں سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی، پانی اس ریاست کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، ملکی ترقی کا انحصار زراعت پر ہے،لائیو سٹاک ، باغات، سبزیات کے لئے پانی کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے، قومی صنعت کا پہیہ بھی اِسی خام مال سے گھوم سکتا ہے،لیکن ساٹھ کی دہائی کے بعد پانی کی سٹوریج کا خاطر خواہ اہتمام کیا ہی نہیں گیا۔
عالمی ماہرین گذشتہ کچھ مدت سے ارباب اختیار کو متوجہ کرتے رہے ہیں کہ پانی کی صورت حال سنگین سے سنگین تر ہو رہی ہے اس کے باوجود ہنگامی طور نہ تو پانی کی سٹوریج پر توجہ مرکوز کی ،نہ ہی ہندوہستان کے ساتھ آبی دہشت گردی پر کوئی مذاکرات ہوئے،سندھ طا س معاہدہ پر بہت سے آبی ماہرین تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں، جس میں پانی کی دریائو ں میں ترسیل کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر کے معاملات شامل تھے، عالمی عدالت میں بھی ہمارے نمائندگان کیس کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہے ہیںجس کا فائدہ ہمسایہ ملک کو ہوا، وہ تین دریا جو مذکورہ معاہدہ کے تحت انڈیا کو دیئے جا چکے ہیں ،ان میں انڈیاعالمی قانون کے تحت چالیس فیصد پانی چھوڑنے کا پابند ہے وہ اس پر بھی عمل درآمد نہیں کر رہا، جس سے جو علاقہ زیادہ متاثر ہورہا ہے وہ جنوبی پنجاب ہے، جس میں وہ علاقہ بطور خاص شامل ہے جہاں کا زیر زمین پانی کڑوا ہے، وہاں کا کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے،نہری تقسیم کے اعتبار سے یہ علاقہ 7/R کا ہے، نہروں کی بندش سے کسان بہت سی مشکلات سے دو چار ہیں، جانوروں کو پانی پلانا بھی اب تو محال ہو رہا ہے۔
اَپنی کرسی کی جنگ میں مصروف جنوبی پنجاب کی قیادت نجانے کیوں کسان کی اس بے بسی سے لا علم ہے، اگر چالیس فیصد پانی بھی ستلج، راوی، سکھ بیاس دریا میں آتا رہے جس کا چھوڑنا انڈیا پر لاز م ہے تو کم از کم وہ علاقہ جات جن کا زیر زمین پانی کڑوا ہے انھیں کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔
عالمی سطح پر موسمی تبدیلی کے اثرات بھی ہماری زراعت پر مرتب ہورہے ہیں، بارشوں میں نمایاں کمی سے بھی یہ شعبہ برُی طرح متاثر ہورہا ہے، گلوبل وارمنگ سے وہ علاقہ جات خشک سالی کی زد میں ہیں جہاں گرمی کی حدت اور شدت زیادہ ہے، ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعی بارش کا اہتمام کر کے کسان کو ریلیف فراہم کرتے ہیں ،ہمیں یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے، ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ بوسیدہ نہری نظام بھی پانی کے ضیاع کی ایک وجہ ہے، وارثتی تقسیم کی وجہ سے زمین کی ملکیت اب چھوٹے قطعات میں بدل رہی ہے اس سے بھی عام کسان کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے، جب تلک ملک کی غالب آبادی مالی طور پر خوشحال نہیں ہو گی، ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔
اس وقت ملک میں امن و امان کی صورت حال قابل رشک نہیں ہے، یہی صورت حال حادثات کی ہے، ہمارے ملک کا شمار اُن چندبد قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں سینکڑوں انسان حادثہ کی صورت میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، گذشتہ دنوں ایک حادثہ کا نوٹس وزیر اعلیٰ پنجاب نے لیا ہے، اور ڈرائیور کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا جو کہ خوش آئند ہے، کہا جاتا ہے کہ بیرون ملک ٹریفک قوانین پر اس قدر سختی سے عمل ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی ملکی شخصیت بھی اس مبرا ء نہیں ہوتی اس لئے وہاں حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے ہاں موٹر وے پر کافی حد تک قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے مگر عام شاہراہیںقطعی محفوظ نہیں ہیں۔
موجودہ حکومت نئے انتخابات سے پہلے بعض اصلاحات کا عندیہ دے چکی ہے، وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرنے کی خواہاں ہے، لیکن جن دیرینہ مسائل کا تذکرہ اس کالم میںکیا گیاہے یہ توجہ طلب ہیں، اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست سے ہٹ کر قوم کے وسیع تر مفاد میں وہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جس کے اثرات دیر پا ہوں۔
تھانہ کلچر کی تبدیلی سیاسی عد م مداخلت سے عبارت ہے، انصاف کی فوری فراہمی کا تعلق اچھی گورننس اور وسائل کی فراہمی سے ہے، امن و امان کا اطلاق قانون کی بلا امتیاز حکمرانی سے ہے، پانی کی قلت اور اسکی فراہمی کا تعلق پانی کے نئے ذخائر تلاش کرنے اسکے سٹوریج کے اہتمام سے ہے، اس طرح تعلیم اور صحت کے معاملات ہیں، جن پر تمام اداروں اور سیاسی قائدین کو یکسو ہونا چاہئے اور ایسا میکانزم قوم کے وسیع تر مفاد میں Develop اور ڈیزائن کرنا چاہئے کہ سرکار کسی کی بھی ہو، عوام ریلیف سے کسی بھی طرح محروم نہ رہے۔
سابقہ حکومت نے سیاسی مخالفت میں کافی وقت ضائع کیا ہے اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے ہم جس گلوبل ولیج کے باسی ہے وہاں معاشرہ کو آگے لے جانے کی پالیسی پر ہر سرکار توجہ موکوز کر رہی ہے ہم تاحال انتقامی سیاست ہی سے باہر نہیں آسکے، اس کلچر کو اب تبدیل ہو نا ہے تاکہ ترقی کے سفر کا آغاز ہو سکے۔